You are reading a tafsir for the group of verses 21:98 to 21:100
اِنَّكُمْ
وَمَا
تَعْبُدُوْنَ
مِنْ
دُوْنِ
اللّٰهِ
حَصَبُ
جَهَنَّمَ ؕ
اَنْتُمْ
لَهَا
وٰرِدُوْنَ
۟
لَوْ
كَانَ
هٰۤؤُلَآءِ
اٰلِهَةً
مَّا
وَرَدُوْهَا ؕ
وَكُلٌّ
فِیْهَا
خٰلِدُوْنَ
۟
لَهُمْ
فِیْهَا
زَفِیْرٌ
وَّهُمْ
فِیْهَا
لَا
یَسْمَعُوْنَ
۟
3

انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھا وردون (21 : 98)

ترجمہ :۔

” بیشک تم اور تمہارے وہ معبود جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو ، جہنم کا ایندھن ہو ، وہیں تم کو جانا ہے۔ “ اچانک یہ لوگ اب میدان حشر میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ یہ جہنم کے دھانے پر کھڑے ہیں۔ بڑی بےدردی کے ساتھ فرشتے ان کو اور ان کے معبودوں کو پکڑتے ہیں اور جہنم میں پھینکتے ہیں۔ وہاں پھینکے جاتے ہیں اور ایندھن کے ساتھ ایندھن ہو کر جلتے جاتے ہیں۔ صرف اس منظر سے ان کے خلاف استدلال ، وجدانی استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر یہ الہ ہوتے تو وہ جہنم کا ایندھن نہ بنتے۔ یہ ہے واقعی وجدانی دلیل۔

لوکان ھولآء الھۃ ماوردوھا (21 : 99) ” اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ “ یہ منظر ان کے سامنے تو قرآن اس دنیا میں پیش کر رہا ہے ، لیکن اس طرح کہ گویا یہ منظر ہو کر گزر گیا ہے۔ وہ عملاً جہنم کے دھانے تک پہنچ گئے اور وہاں ڈال دیئے گئے تو اب جہنم میں ان کا جو حال ہے ، وہ پیش کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح کہ جس طرح کوئی عملاً ایسے حالات میں پڑا ہو۔

وکل فیھا خلدون (21 : 99) لھم فیھا زفیر وھم فیھا لا یسمعون (21 : 100) ” اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ پھنکارے ماریں گے اور حال یہ ہوگا کہ اس میں کان بڑی آواز نہ سنائی دے گی۔ “ اب ذرا ان کو یہاں ہی چھوڑیئے اور آیئے دیکھیں مومنین کا حال کیسا ہے۔ ان کے حق میں تو فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ کامیابی اور نجات ان کا مقصدر ہوچکی ہے۔