کسی بستی کے لیے ایمان میں داخلہ حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قبولِ ایمان کی استعداد ختم ہوجائے۔ جب حق واضح دلائل کے ساتھ سامنے آتا ہے تو آدمی اپنی عین فطرت کے تحت مجبور ہوتا ہے کہ وہ اس کو پہچانے۔ اب جو لوگ اس پہچان کے بعد حق کا اعتراف کرلیں وہ اپنی فطرت کو باقی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دینے کی بنا پر اس کا اعتراف نہ کریں وہ گویا اپنی فطرت پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ حق کا انکار ہمیشہ اپني فطرت کو اندھا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی فطرت کو اندھا بنانے کا خطرہ مول لیں ان کا انجام یہی ہے کہ ان کے لیے ایمان میں داخل ہونا بالکل ناممکن ہوجائے۔
جو لوگ دلائل کی زبان میں حق کو نہ پہچانیں وہ حق کو صرف اس وقت پہچانیں گے جب کہ قیامت ان کی آنکھ کا پردہ پھاڑ دے گی۔ مگر اس وقت کا پہچاننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ ماننے کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ ماننے کا۔