حتی اذا ……فعلین (104)
سورة کہف میں قصہ ذوالقرنین کے بیان میں ہم نے یہ کہا تھا ” یاجوج اور ماجوج کے کھلنے کے ساتھ قرب قیامت کے وقت کا جو ذکر آتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ قرب قیامت تاتاریوں کے نکلنے سے واقع ہوگیا ہو ، تاتاری نکلے اور آناً فاناً شرق و غرب پر چھا گئے اور انہوں نے تمام ممالک اور بادشاہوں کو روند ڈالا اس لئے کہ قرآن نے حضور اکرم ؐ کے زمانے ہی میں کہہ دیا تھا کہ و اقتربت الساعۃ ” قیامت قریب آگئی “ نیز قایمت کے قریب ہونے سے بھی ” قریب “ کا تعین نہیں ہوتا کیونکہ زمانے کا حساب انسانوں کے نزدیک اور اللہ کے نزدیک بالکل مختلف ہے۔ اللہ کے ہاں ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے۔ “
یہاں اس دن کے مناظر بتائے جا رہے ہیں جب وہ آجائے گا او اس دن کے آنے سے قبل زمین کے اندر جو واقعات ہوں گے وہ یہ کہ یاجوج اور ماجوج ہر طرف سے پھوٹ پڑیں گے اور پھر بلندی سے وہ ٹوٹ پڑیں گے۔ قرآن کریم کا یہ خاص انداز ہے کہ وہ زمین کے مالوف مناظر کو پیش کر کے انسان کو اخروی مناظر کی طرف لے جاتا ہے۔
یہاں قیامت کا جو منظر پیش کیا جا رہا ہے اس میں سر پر ائز دینے کا ایک عنصر ہے۔ اس منظر کو اچانک دیکھ کر لوگ مبہوت رہ جائیں گے۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔
فاذا ھی شاخصۃ ابصار الذین کفروا (21 : 98) ” یکایک ان لوگوں کے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کفر کیا تھا۔ “ یہ منظر اس قدر اچانک ہوگا کہ اس کے خوف کی وجہ سے لوگوں کو کچھ نظر ہی نہ آئے گا۔ یہاں قرآن کریم نے ابصار سے پہلے شافعہ کا لفظ رکھا ہے تاہ اس منظر کو اچھی طرح ذہن نشین کر دے۔ اب ان کے حالات اور ان کی حالت کو چھوڑ کر قرآن ان کے مکالمے کو نقلک رتا ہے۔ اس طرح یہ منظر اسکرین پر واضح ہو کر آتا ہے۔
قالوا یویلنا قد کنا فی غفلۃ من ھذا بل کنا ظلمین (21 : 98) ” کہیں گے ہائے ! ہماری کم بختی ، ہم اس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے بلکہ ہم خطاکار تھے۔ “ یہ ہے فریاد اس شخص کی جس پر غیر متوقع طور پر کوئی مصیبت آجائے۔ ایک خطرناک حقیقت اچانک اس پر کھل جائے۔ وہ دہشت زدہ ہوجائے۔ دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں۔ دیکھے مگر نظر نہ آئے۔ آخر کار چیخ اٹھے کہ مارے گئے۔ اعتراف گناہ کرلے۔ نادم ہوجائے مگر بعد از وقت۔
جب اچانک پکڑے جانے ، دہشت زدہ ہونے ، اور حواس بحال ہونے کے بعد اعتراف ہوتا ہے تو حکم الٰہی فی الفور صادر ہوتا ہے۔
انکم و ماتعبدون من دون اللہ حصب جھنم انتم لھا وردون (21 : 98)