فمن یعمل من اصلحت وھو مومن فلا کفران لسعیہ وانا لہ کتبون (21 : 93) ” پھر جو نیک عمل کرے گا اس حال میں کہ وہ مومن ہو ، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہوگی اور اسے ہم لکھ رہے ہیں۔ “ یہ ہے قانون عمل اور جزائے عمل۔ عمل صالح اگر قاعدہ ایمان کے اوپر مبنی ہو تو نہ اس کا انکار ہوگا اور نہ اس کی ناقدری ہوگی۔ وہ اللہ کے ہاں لکھا جا چکا ہوگا اور اس میں سے کوئی چیز لکھنے سے چھوٹ نہیں سکتی۔
اور ایمان پر مبنی ہونا اس لئے ضروری ہے کہ ایمان اور عمل کی قدر و قیمت ہو ، اگر ایمان نہ ہو تو عمل صالح ایمان موجود ہی نہیں ہو سکتا۔ ضروری ہے کہ عمل صالح ایمان کا ثمرہ ہو بلکہ وہ ایمان کا ثبوت ہو۔ ایمان زندگی کی بنیاد ہے کیونکہ ایمان دراصل انسان اور اس کائنات کے درمیان حقیقی رابطہ ہے۔ ایسا رابطہ جو اس کائنات کو اور اس کے اندر تمام موجودات کو خالق واحد کے ساتھ مربوط کردیتا ہے۔ پھر یہ سب کچھ اس ناموس قدرت کی طرف پھرجاتا ہے جس کے مطابق پوری کائنات چل رہی ہے اور جب تک پختہ اساس نہ ہوگی اس وقت تک اس کے اوپر عمارت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی۔ عمل صالح کی مثال اونچی بلڈنگ کی ہے۔ اگر یہ اونچی عمارت کسی مضبوط اساس پر نہ اٹھائی جائے تو وہ کسی بھی وقت دھڑام سے گر جاتی ہے۔
پھر عمل صالح ہمیشہ اس ایمان کا ثمر ہوتا ہے جو اگرچہ دلوں میں ہو لیکن زندہ ایمان ہو۔ اسلام کس چیز کا نام ہے ؟ یہ ایک متحرک عقیدہ ہے۔ جس وقت یہ متحرک عقیدہ ضمیر میں اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے تو پھر وہ جسم انسانی سے عمل صالح کی شکل میں نمودار ہوتا ہے بلکہ عمل صالح دراصل ایمان کا ایک پختہ پھل ہوتا ہے۔ یہ پھل لگتا ہی تب ہے اور پختہ بھی تب ہی ہوتا ہے جب درخت زمین کے اندر گہرائی میں جانے والی جڑوں پر کھڑا ہو۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم جب عمل اور جزاء کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایمان اور عمل کو ایک ساتھ لاتا ہے لہٰذا ایسے ایمان پر کوئی جزاء نہیں ہے وہ منجمد ہو ، بالکل بچھا وہا ہو او اس کے ساتھ بالکل کوئی پھل نہ لگتا ہو۔ اسی طرح اس عمل پر جزاء نہیں ہے جو ایمان سے کٹا ہوا ہو۔
بعض اوقات بغیر ایمان کے بھی ایک اچھا عمل دیکھا جاتا ہے ، لیکن یہ ایک عارضی اتفاق ہوتا ہے ، کیونکہ یہ عمل ایک مکمل نقشے کے مطابق نہیں ہوتا نہ کسی قاعدے اور قانون پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ دراصل بعض اوقات ایک عاضری جذبے یا عارضی خواہش کے مطابق ظاہر ہوجاتا ہے اور اس کی پشت پر کوئی حقیقی باعث یا سبب نہیں ہوتا جو اس کائنات کے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہو۔ مضبوط حقیقت یہ ہے کہ عمل صالح خدائے ذوالجلال کی رضا مندی کے لئے کیا جائے۔ ایسا ہی عمل دراصل تعمیری عمل ہوتا ہے۔ ایسا ہی عمل اس کمال اور ترقی کا سبب بنتا ہے جو اللہ نے اس دنیا کی زندگی کی ترقی کے لئے طے کیا ہے۔ پس عمل صالح وہ بامقصد تحریک ہے جو اس زندگی کے مقصد کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔ محض عارضی جذبہ یا محض اتفاقی اثر اس کا باعث نہیں ہوتا بلکہ وہ با مقصد عمل ہوتا ہے۔ پھر یہ عمل ایسا ہو کہ جس طرح یہ پوری کائنات خالق کائنات کے قانون قدرت کے مطابق چل رہی ہے اسی طرح وہ عمل بھی خالق کائنات کے قانون انسانی اور قانون فطرت کے مطابق ہو۔ دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہو۔
عمل کی مکمل جزاء تو آخرت میں ملتی ہے اگرچہ اس کا ایک حصہ اس دنیا میں بھی مل جائے۔ جن بستیوں کو دنیا میں بلاک کیا گیا ان کو ان کی بد اعمالیوں کی سزا آخرت میں بھی ملے گی۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کو میدان حشر میں نہ اٹھایا جائے۔ لازماً حشر کے میدان میں یہ سب لوگ اٹھائے جائیں گے۔