وَالَّتِیْۤ
اَحْصَنَتْ
فَرْجَهَا
فَنَفَخْنَا
فِیْهَا
مِنْ
رُّوْحِنَا
وَجَعَلْنٰهَا
وَابْنَهَاۤ
اٰیَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ
۟
3

والتی …للعلمین (91)

یہاں مریم کے نام کو بھی حذف کردیا گیا ہے کیونکہ انبیاء کے تذکرے کے سلسلے میں ان کے بیٹے کا ذکر اصل مقصود تھا۔ آپ کا تذکرہ ان کے حالات کے ذیل میں آگیا اور آپ کی صرف اس صفت کو یہاں دہرایا گیا جس کا تعلق آپ کے بیٹے کے ساتھ ہے۔

والتی احصنت فرجھا (21 : 91) ” جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی۔ “ یعنی اس نے اسے کسی قسم کی مباشرت سے بچایا۔ احصان اپنے قانونی استعمال میں نکاح کے لئے استعمال ہوتا ہے کیونکہ شادی شدہ ہونا دراصل فحاشی سے بچنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کی بہترین صورت ہے۔ یہاں یہ لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو ہر قسم کی مباشرت سے بچانا خواہ قانونی یا غیر قانونی ہو۔ یہ اس لئے کہ یہودیوں نے حضرت مریم پر بدکاری کا الزام لگایا اور انہیں یوسف نجار کے ساتھ مہتمم کیا تھا جو ہیکل کا ایک خدمتگار تھا۔ متد اولہ انجیلس اس بارے میں یہ کہتی ہیں کہ یوسف نجار نے مریم کے ساتھ نکاح کرلیا تھا لیکن ابھی رخصتی نہ ہوئی تھی اور وہ ان کے قریب نہ گیا تھا۔

جب اس نے پاکدامنی اور عفت اختیار کی فنفخنا فیھما من روحنا (21 : 91) ” ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونک دی۔ “ نفخ روح یہاں بھی عام ہے ، اس کا تعلق نہیں ہے۔ جس طرح سورة تحریم میں آ رہا ہے۔ سورة مریم میں ہم اس کی تفصیلات دے چکے ہیں۔ فی ضلال القرآن میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم آیات الٰہی تک اپنی بات کو محدود رکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں بھی ہم تفصیلات میں نہیں جاتے ۔ آیات کے ساتھ ساتھ ہی ہم آخر تک جاتے ہیں۔

وجعلنھا وابنھا ایۃ للعلمین (21 : 91) ” اور اسے اور اس کے بیٹے کو دنیا بھر کے لئے نشانی بنا دیا۔ “ یہ ایک ایسا معجزہ اور ایسی نشانی تھی کہ نہ اس سے پہلے ایسا واقعہ ہوانہ بعد میں ہوگا۔ پوری انسانی تاریخ میں یہ واحد مثال ہے۔ یہ واقعہ اپنی مثال آپ ، اس لئے بنا دیا گیا کہ پوری انسانیت کے غور و فکر کے لئے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔ دست قدرت اپنے بنائے ہوئے قوانین قدرت کے مطابق کام کرتا ہے مگر اللہ اپنے بنائے ہوئے قوانین کا خود پابند نہیں ہے۔

رسولوں کے اس سلسلے کے بیان کے آخر میں ، جس میں رسولوں کی مثالیں ، ان کی آزمائشوں کی مثالیں ، ان پر اللہ کی رحمتوں کی مثالیں دی گئیں ، اب قرآن مجید ایک جامع بات بطور خلاصہ کلام بیان کرتا ہے۔