You are reading a tafsir for the group of verses 21:89 to 21:90
وَزَكَرِیَّاۤ
اِذْ
نَادٰی
رَبَّهٗ
رَبِّ
لَا
تَذَرْنِیْ
فَرْدًا
وَّاَنْتَ
خَیْرُ
الْوٰرِثِیْنَ
۟ۚۖ
فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ ؗ
وَوَهَبْنَا
لَهٗ
یَحْیٰی
وَاَصْلَحْنَا
لَهٗ
زَوْجَهٗ ؕ
اِنَّهُمْ
كَانُوْا
یُسٰرِعُوْنَ
فِی
الْخَیْرٰتِ
وَیَدْعُوْنَنَا
رَغَبًا
وَّرَهَبًا ؕ
وَكَانُوْا
لَنَا
خٰشِعِیْنَ
۟
3

حضرت یحییٰ کی پیدائش کا قصہ سورة مریم اور سورة آل عمران میں گزر چکا ہے ، بڑی تفصیلات کے ساتھ یہاں دوسرے قصص کی طرح فقط اشارات ہی ہیں۔ اس کا آغاز حضرت زکریا کی اس دعا سے ہوتا ہے۔

رب لاتذرنی فرداً (21 : 89) ” پروردگار ، مجھے اکیلا نہ چھوڑ “۔ کہ میرا کوئی وارث نہ ہو ، جو میرے بعد ہیکل کے معاملات کا نگراں ہو۔ حضرت زکریا بنی اسرائیل کے ہیکل (عبادت گاہ) کے نگراں تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ عبادات ، مقامات ، عبادات اور تمام لوگوں کے اموال کا آخری وارث تو اللہ ہی ہے۔ اسی لئے انہوں نے کہہ دیا۔

وانت خیر الورثین (21 : 89) ” اور بہترین وارث تو تو ہی ہے “ لیکن ان کا اصل مدعا یہ تھا کہ ان کے بعد ان کے اہل و عیال کے لئے ، ان کے دین کے لئے اور ان کے مال کے لئے ، ان کو اچھا جانشین ملے کیونکہ خلافت ارضی میں انسان ہی دست قدرت کا کام کرتا ہے۔ قبولیت دعا بھی فوراً ہی ہوتی ہے۔

فاستجبنا لہ و ھبنا لہ یحییٰ و اصلحنا لہ زوجہ (21 : 90) ” پس ہم نے اس کی دعا قبول کرلی۔ اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لئے درست کردیا۔ “ وہ بانجھ تھی ولادت کے قابل ہی نہ تھی لیکن یہاں دوسرے قصص کی طرح سیاق کلام میں اختصار کر کے قاری کو انجام یعنی استجابت دعا تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

انھم کانوا یسرعون فی الخیرت (21 : 90) ” یہ لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے تھے۔ “ تو اللہ نے قبولیت دعا میں جلدی فرمائی۔

ویدعوننا رغباً و رھباً (21 : 90) ” اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے۔ “ رغبت اس لئے کہ اللہ راضی ہوجائے اور ڈر اس کا کہ اللہ ناراض نہ ہوجائے۔ ان کے دل اللہ کے ساتھ پختہ رابطہ رکھتے تھے ۔ اللہ کی رحمت کے وہ ہر وقت امیدوار رہے تھے۔

وکانوالنا خشعین (21 : 90) ” اور وہ ہمارے آگے جھکے ہوئے تھے۔ “ نہ تکبر کرتے تھے اور نہ ہمارے مقابلے میں زور آور تھے۔ یہ تھیں وہ صفات جن کی وجہ سے حضرت زکریا ، بیگم زکریا (علیہ السلام) اس بات کے مستحق ہوئے کہا نہیں غیر معمولی طور پر یحییٰ جیسا غیر معمولی لڑکا دیا جائے۔ یوں یہ ایک مبارک خاندان تھا ، اللہ کی رحمت و رضا کی مستحق۔

سب سے آخر میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے ان کے والدہ حضرت مریم کا ذکر بھی آتا ہے ، اسی اختصار کے ساتھ۔