اس کے بعد قرآن مجید حضرت اسماعیل ‘ حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل کی طرف صرف اشارہ کرتا ہے۔
واسمعیل و ادریس۔۔۔۔۔۔ من الصلحین (58۔ 68) ’
ان انبیاء کے حالات زندگی میں صبر کا عنصر بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں حکم دیا کہ انہیں ذبح کردیا جائے۔ جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ یہ صبر کا مثالی نمونہ تھا۔
یا ابت افعل۔۔۔۔۔۔ من الصبرین ” اے باپ ‘ آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اس پر عمل کریں۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے “۔
حضرت ادریس کے بارے میں اس سے قبل یہ بات آگئی ہے کہ ان کا زمان و مکان مجمول ہے۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں نے یہ رائے دی ہے کہ وہ اور ادریس ہیں جن کی وفات کے بعد مصریوں نے ان کی پرستش شروع کردی تھی اور ان کے ساتھ کئی قصے اور کہانیاں وابستہ کردی تھیں مثلاً یہ کہ وہ انسانوں کے معلم اول ہیں ‘ جنہوں نے انسانوں کو زراعت سکھائی۔ صنعت کی تعلیم دی لیکن اس بات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ ہمیں اس کا یقین ہے کہ انہوں نے بھی کسی مشکل میں مثالی صبر کا مظاہرہ کیا جس کا ذکر اللہ کی آخری کتاب میں ضروری سمجھا گیا۔
حضرت ذوالکفل کے زمان و مکان کے بارے میں بھی معلومات نہیں ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ وہ نبی اسرائیل کے انبیاء میں سے تھے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ صالحین بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کی کفالت اور خدمت کی اور انہوں نے ان کو اپنی خلافت تین شرائط کی ضمانت دینے پر ‘ ان کے حوالے کی کہ پوری رات عبادت کریں گے ‘ ہر دن روزے سے ہوں گے اور فیصلہ کرتے وقت کسی پر غصہ نہ کریں گے۔ انہوں نے ان ضمانتوں کو پورا کیا اس کیے ان کو ذوالکفل کیا گیا لیکن یہ بھی ایک قول ہے اس پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کریم یہاں صرف یہ تصریح کرتا ہے کہ یہ صبر کرنے والے تھے۔