You are reading a tafsir for the group of verses 21:83 to 21:84
وَاَیُّوْبَ
اِذْ
نَادٰی
رَبَّهٗۤ
اَنِّیْ
مَسَّنِیَ
الضُّرُّ
وَاَنْتَ
اَرْحَمُ
الرّٰحِمِیْنَ
۟ۚۖ
فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ
فَكَشَفْنَا
مَا
بِهٖ
مِنْ
ضُرٍّ
وَّاٰتَیْنٰهُ
اَهْلَهٗ
وَمِثْلَهُمْ
مَّعَهُمْ
رَحْمَةً
مِّنْ
عِنْدِنَا
وَذِكْرٰی
لِلْعٰبِدِیْنَ
۟
3

پیغمبروں کے ذریعہ خدا ہر قسم کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے ليے نمونہ ہوں۔ انھیں میں ایک مثال حضرت ایوب کی ہے۔ حضرت ایوب غالباً نویں صدی قبل مسیح کے اسرائیلی پیغمبر تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق ابتداء ً۔ وہ بہت دولت مند تھے۔ کھیتی، مویشی، مکانات، آل اولاد، ہر چیز کی اتنی کثرت تھی کہ کہاجانے لگا کہ اہلِ مشرق میں کوئی اتنا بڑا آدمی نہیں۔ اس کے باوجود حضرت ایوب بے حد شکر گزار اور وفادار بندے تھے۔ ان کی زندگی اس بات کا نمونہ بن گئی کہ عزت اور دولت پانے کے باوجود کس طرح ایک آدمی متواضع بندہ بنا رہتا ہے۔

مگر شیطان نے اس واقعہ کو لوگوں کے ذہنوں میں الٹ دیا۔ اس نے لوگوں کو سکھایا کہ ایوب کی یہ غیرمعمولی خدا پرستی اس لیے ہے کہ ان کو غیر معمولی نعمتیں حاصل ہیں۔ اگر یہ نعمتیں ان کے پاس نہ رہیں تو ان کی ساری شکر گزاری ختم ہوجائے گی۔

اس کے بعد خدا نے آپ کے ذریعہ سے دوسری مثال قائم کی۔ حضرت ایوب کے مویشی مرگئے۔ کھیتیاں برباد ہوگئیں۔ اولاد ختم ہوگئی۔ حتی کہ جسم بھی بیماری کی نذر ہوگیا۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ صرف ایک بیوی آپ کے ساتھ باقی رہ گئی۔ مگر حضرت ایوب خداکے فیصلے پر راضی رہے۔ انھوںنے کامل صبر کا مظاہرہ کیا۔ بائبل کے الفاظ میں

’’تب ایوب نے زمین پر گر کر سجدہ کیا۔ اور کہا ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلااور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔ ان سب باتوں میں ایوب نے نہ تو گناہ کیا اور نہ خدا پر بے جا کام کا عیب لگایا‘‘ (ایوب، 1:22 )۔

حضرت ایوب نے جب مصیبتوں میں اس طرح صبر وشکر کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف آخرت میں ان کے لیے بہترین اجر لکھ دیاگیا بلکہ دنیا میں بھی ان کی حالت بدل دی گئی۔ اور خدا وند نے ایوب کو جتنا اس کے پاس پہلے تھا اس کا دو چند اس کو دیا (ایوب، 12:42 )۔ حدیث میں اسی کو تمثیل کے الفاظ میں اس طرح کہاگیاہے کہ خدا نے جب دوبارہ ایوب کے دن پھیرے تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش کردی (أَمْطَرَ عَلَيْهِ جَرَادًا مِنْ ذَهَبٍ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2533۔