وَاَیُّوْبَ
اِذْ
نَادٰی
رَبَّهٗۤ
اَنِّیْ
مَسَّنِیَ
الضُّرُّ
وَاَنْتَ
اَرْحَمُ
الرّٰحِمِیْنَ
۟ۚۖ
3

اب ذرا مصائب میں مبتلا کر کے آزمانے کا واقعہ آتا ہے۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ۔

وایوب اذ نادی۔۔۔۔۔۔۔ و ذکری للعبدین (48) ” ۔

حضرت ایوب (علیہ السلام) کا قصہ قرآن مجید کے ابتلاء کے قصوں میں سے ایک نہایت ہی خوبصورت قصہ ہے۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں یہ قصہ آیا ہے۔ یہ مجمل شکل میں آیا ہے۔ تفصیلات نہیں دی گئیں۔ اس جگہ یہاں حضرت ایوب کی دعا اور قبولیت دعا کا ذکر ہے کہون کہ اس سورة میں موضوع اور مضمون یہ اپنے بندوں پر رحمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک اور آزمائش میں ان کی امداد ہے خواہ یہ آزمائش قوم کی طرف سے تکذیب کی صورت میں ہو ‘ مثلا قصہ ابراہیم ‘ لوط اور نوح (علیہم السلام) میں یا اللہ کی جانب سے انعامات میں آزمائش ہو جس طرح دائود و سلیمان (علیہما السلام) یا مرض وغیرہ کی آزمائش ہو جس طرح حضرت ایوب (علیہ السلام) کے قصے میں ہے۔

حضرت ایوب (علیہ السلام) نے یہاں جو دعا کی ہے تو اس میں انہوں نے صرف یہ بتایا ہے کہ اللہ میرا یہ حال ہے اور رب تعالیٰ کی یہ صفت بیان کی ہے :

انت ارحم الرحمین (12 : 38) اس کے بعد انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میرے حالات کو بدل دے ‘ یہ اس لیے کہ وہ مصیبتوں پر صبر کرنے والے تھے ‘ وہ اللہ کے سامنے کوئی تجویز یا مطالبہ نہ کرتے تھے۔ یہ ان کی جانب سے بارگاہ رب العزت میں ادب اور احترام کا رویہ تھا۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) ایک ایسے صابر و شاکر شخصیت تھے کہ سخت سے سخت حالات میں وہ صبر کرتے تھے۔ کوئی فریادنہ کرتے تھے۔ آپ کا صبر اس قدر مشہور ہوا کہ وہمیشہ ان کی مثال دی جاتی ہے۔ آپ اس قدر صابر اور شاکر تھے کہ آپ نے اس مصیبت کے رفع ہونے کی دعا بھی نہیں فرمائی۔ پورا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو سب کچھ معلوم تھا۔ اس لیے سوال کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

جب حضرت ایوب (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف اس اعتماد کے ساتھ اور اس مودبانہ طریقے سے متوجہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فوراً ان کی دعا کو قبول کیا ‘ آزمائش ختم ہوگئی اور رحمت خدا وندی آن پہنچی۔ نہ صرف یہ کہ ان کی تکلیف دور ہوئی بلکہ ان کے اہل و عیال بھی ان کو دے دیئے اور اسی قدر مزید بھی دیئے۔