You are reading a tafsir for the group of verses 21:81 to 21:82
وَلِسُلَیْمٰنَ
الرِّیْحَ
عَاصِفَةً
تَجْرِیْ
بِاَمْرِهٖۤ
اِلَی
الْاَرْضِ
الَّتِیْ
بٰرَكْنَا
فِیْهَا ؕ
وَكُنَّا
بِكُلِّ
شَیْءٍ
عٰلِمِیْنَ
۟
وَمِنَ
الشَّیٰطِیْنِ
مَنْ
یَّغُوْصُوْنَ
لَهٗ
وَیَعْمَلُوْنَ
عَمَلًا
دُوْنَ
ذٰلِكَ ۚ
وَكُنَّا
لَهُمْ
حٰفِظِیْنَ
۟ۙ
3

ولسلمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا لھم حفظین (12 : 28) ” اور سلیمان کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخر کردیا تھا جو اس کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں ‘ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دوسرے کام کرتے تھے ‘ ان سب کے نگران ہم ہی تھے “۔

سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں بہت سی باتیں ‘ بہت سی روایات اور بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ ان میں سے اکثر یا تو اسرائیلیات سے لی گئی ہیں یا اوہام و تخیلات کا نتیجہ ہیں۔ لیکن روایات کے اس صحرا میں ہم نے اپنے آپ کو بےراہ نہیں کرنا چاہتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ حددود قرآنیہ تک اپنے آپ کو محدود کردیں۔ قرآن کریم کے علاوہ سلیمان (علیہ السلام) کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ہے۔

قرآن کریم میں صرف اس حد تک بیان ہوا ہے کہ ہوا کو ان کے لیے مسخر کردیا گیا تھا۔ یعنی تیز رفتار ہوا کو۔ یہ ہوا ارض متبرک کر طرف چلتی تھی۔ برکت والی سر زمین سے مراد موجودہ شام کی سر زمین ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے قصے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے لیے اس ہوا کو کیونکر مسخر کردیا گیا تھا۔

ایک قصہ ہوا کے تخت یا ہو کی چادر کا ہے کہ حضرت سیلمان (علیہ السلام) اور آپ کے حاشیہ نشین اس پر بیٹھتے تھے اور اڑ جاتے تھے اور شام کی طرف چلے جاتے تھے اور چشم زون میں وہ شام میں ہوتے تھے۔ یہ اس قدر سفر تھا کہ اونٹوں پر ایک ماہ میں طے ہوتا تھا اور اسی طرح وہ واپس آجاتے تھے۔ اس روایت کو سورة سبا کی اس آیت سے ثابت کیا جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے۔

ولسلیمان الریح۔۔۔۔۔ رواحھا شھر (43ـ: 21) ” اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کردیا تھا ‘ صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک “۔

لیکن قرآن کریم نے ہوا کی اس چادرکا ذکر کہیں نہیں کیا۔ اس کا ذکر کسی صحیح حدیث میں بھی نہیں ہوا۔ لہذا اس قسم کی روایات کے بارے میں ہمیں کوئی مستند ثبوت نہیں ملا۔

زیادہ بہتر یہ ہے کہ ہم تسخیرہوا کا مفہوم یہ لیں کہ یہ ہوا اللہ کے حکم کے مطابق یوں چلتی تھی کہ ایک طرف سے ایک ماہ کا مفر وہ صبح و شام طے کرتی تھی۔ یہ سفر کیسے ہوجاتا تھا ؟ تو یہ قدرت الہٰی کے کارنامے ہیں۔ اس کے بارے میں ہم نہیں پوچھ سکتے کہ یہ کیسے چلتی تھی۔ قوانین قدرت کی تخلیق اللہ نے کہ ہے۔ وہ جس طرف چاہے ان قوائے قدرت کا رخ پھیر سکتا ہے۔ اس کائنات میں قدرت کے اصولوں میں سے ابھی انسان کو کم ہی کا پتہ چلا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ کے کچھ خفیہ طبیعی قوانین ایسے ہوں جن کا ابھی تک ہمیں علم نہ ہو اور ان اصولوں کا ظہور اور انکشاف اس وقت ہو جب انسان اس کا برداشت کرنے کے اہل ہوں اور اللہ کا حکم ہو۔

وکنا بکل شیی علمین (12 : 18) ” اور ہم ہر چیز کو جانتے تھے “۔ مطلق اور بےقید علم ہمارے قبضے میں ہے۔ رہا انسان کا علم تو وہ محدود ہے۔

یہی معاملہ تسخیر جنات کا ہے جو بحروبر میں ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور سیلمان (علیہ السلام) کے لیے زمین کے خزانے نکالتے تھے یا وہ ان کے لیے دوسری خدمات سر انجام دیتے تھے۔ جن ہر اس مخلوق کو کہتے ہیں جو مخفی ہو۔ قرآن مجید کی صریح آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک مخلوق ایسی ہے جسے جن کہتے ہیں ‘ جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس مخلوق میں سے کچھ لوگوں کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے مسخر کردیا گیا تھا جو ان کے لیے غوطے لگاتے تھے اور دوسرے کام کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے کنٹرول میں دے دیا تھا کہ نہ وہ بھاگ سکتے تھے ‘ نہ فساد کرسکتے تھے۔ وہ نہ ان کی فرماں برادری کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر پوری طرح کنٹرول کرسکتا ہے اور اپنی مخلوق کو جس طرح چاہے استعمال کرے۔

بس فی ظلال میں ہم اس حد تک جاتے ہیں اور یہی وہ حد ہے جس میں غلطی کا احتمال کم ہے۔ اس لیے ہمیں اسرائیلیات میں تیرنے کی ضرورت نہیں۔

اللہ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو خوشحالی میں آزمایا تھا۔ انعامات میں آزمایا تھا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کو فیصلے میں آزمایا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو گھوڑوں کے بارے میں آزمایا تھا (تفصیلات سورة ص میں آرہی ہیں لہٰذاہم یہ مباحث یہاں نہیں چھیڑتے) ۔ اپنی جگہ یہ سب بحثیں ہوں گی۔ یہاں نتیجے کا ذکر ضروری ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے بھے صبر کیا ‘ حضرت سلیمان (علیہما السلام) نے بھی صبر کیا اور آزمائشوں کے بعد اللہ سے معافی اور مغفرت طلب کی اور امتحان و آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے۔ چناچہ وہ اللہ کے انعامات پر شکر خداوندی بجالانے والے تھے۔