وعلمنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکرون (12 : 08) ” اور ہم نے اس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی ‘ تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے۔ ھپر کیا تم شکر گزار ہو ؟ “ یہ زرہ کی صنعت ہے جس کے حلقے ایک دوسرے سے گزرتے ہیں۔ جبکہ اس سے قبل وہ ایک جامد چادر کی صورت میں بتائی جاتی تھیں۔ کڑیوں کا ایک دوسرے میں داخل کرکے زرہ بننا زیادہ نرم اور استعمال میں زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زرہ کی یہ ترقی یافتہ قسم سب سے پہلے اللہ کی تعلیم سے حضرت دائود (علیہ السلام) نے ایجاد کی۔ اللہ فرماتا ہے کہ اس نے دائود (علیہ السلام) کی یہ صفت سکھا کر تم پر بڑا احسان کیا کہ تم جنگ کے دوران ایک دوسرے کی مار سے بچ جاتے ہو۔
لتحصنکم من باسکم (12 : 08) ” تاکہ تمہیں بجائے ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کے وقت “۔ یہ احسان جتلا کر اللہ تعالیٰ پھر پوچھتے ہیں کیا تم شکر کرو گے۔ یہ سوال سمجھانے اور شکر پر ابھارنے کے لیے ہے۔
اسلامی تہذیب و تمدن نے ایک ایک قدم کر کے ترقی کی ہے۔ ایک جست میں انسان یکدم مہذب اور ترقی یافتہ نہیں ہوا۔ دنیا کی ترقی کا فریضہ خلافت ارضی سے تعلق رکھتا ہے اور یہ انسان پر عائد کیا گیا ہے۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے یہ قوت دکھی تھی کہ وہ ہر دن ایک قدم آگے بڑھتا رہے اور ہر دن کی ترقی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالتا رہے ۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ انسان کے مزاج کے یہ بات خلاف ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو نظام جدید کے مطابق ڈھال لے کیونکہ اس طرح یکدم تبدیلی سے اس کی عادات اور مروج طریق کار بدل جاتا ہے اور بالکل نیا نظام یکدم دینے سے انسان کو معمول کی زندگی از سر نو شروع کرنے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کا ارادہ یہ ہوا کہ زندگی کے نظام میں ہر بڑی تبدیلی کے بعد انسان کو اگلی تبدیلی کے لیے مناسب وقت دیا جائے ‘ بعض اوقات یہ وقت تھوڑا ہوتا ہے اور بعض اوقات زیادہ لمبا عرصہ ہوتا ہے۔
آج دنیا کے اعصاب پر جو ناقابل برداشت تنائو ہے اور انسان کے اندر جو بےچینی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سائنسی انکشافات اور سوسائٹی کے نظام میں سرعت کے ساتھ بار بار کی تبدیلیوں کی وجہ سے ‘ انسانیت کو سانس لینے ‘ سستا نے کا موقعہ ہی نہیں ملتا کہ وہ ملتا کہ وہ ایک عرصہ تک جدید نظام کی برکات سے متمتع ہو۔ انقلاب پر انقلاب چلا آرہا ہے۔
یہ تو تھا معاملہ دائود (علیہ السلام) کا ‘ رہے سلیمان (علیہ السلام) تو ان کو بھی زیادہ معجزات دیئے گئے تھے۔