You are reading a tafsir for the group of verses 21:78 to 21:79
وَدَاوٗدَ
وَسُلَیْمٰنَ
اِذْ
یَحْكُمٰنِ
فِی
الْحَرْثِ
اِذْ
نَفَشَتْ
فِیْهِ
غَنَمُ
الْقَوْمِ ۚ
وَكُنَّا
لِحُكْمِهِمْ
شٰهِدِیْنَ
۟ۗۙ
فَفَهَّمْنٰهَا
سُلَیْمٰنَ ۚ
وَكُلًّا
اٰتَیْنَا
حُكْمًا
وَّعِلْمًا ؗ
وَّسَخَّرْنَا
مَعَ
دَاوٗدَ
الْجِبَالَ
یُسَبِّحْنَ
وَالطَّیْرَ ؕ
وَكُنَّا
فٰعِلِیْنَ
۟
3

وداود و سلیمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا لھم حفظین (87 : 28) ”

کھیت کا وہ کیا قصہ تھا جس کے بارے میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام نے فیصلہ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ دو آدمی حضرت دائود کے پاس آئے۔ ایک کھیت کا مالک تھا یعنی فصل کا اور انگور کے باغ کا اور دوسرا بکریوں کا ۔ کھیت کے مالک نے کہا کہ اس شخص کی بکریاں رات کے وقت میرے کھیت میں پھیل گئیں اور انہوں نے سب کچھ کھالیا اور کھیت میں کچھ نہ رہا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے فیصلہ دیا کہ وہ باغ کے بدلے اس شخص کی بکریاں لے لے۔ بکریوں والے صاحب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس گئے اور ان کے سامنے قصہ دہرایا اور انہیں بتایا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے تو یہ فیصلہ دے دیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) والد کے پاس گئے۔ انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی فیصلہ وہ نہیں ہے جو آپ نے کیا ہے۔ انہوں نے کہا وہ کیسے ؟ انہوں نے کہا آپ یہ بکریاں کھیت یا باغ والے شخص کے حوالے کردیں تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے اور کھیت بکریوں کے مالک کو دے دیں تاکہ وہ کھیت میں کام کرے اور اسی حالت میں لے آئے جس طرح تھا۔ اس کے بعدہر شخص وہ چیز دوسرے کو دے دے جو اسکے پاس ہے۔ کھیت والا کھیت لے لے اور بکریوں والا بکریاں لے لے۔ تو حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا ‘ ٹھیک فیصلہ وہی ہے جو آپ نے کیا۔ انہوں نے سلیمان (علیہ السلام) کے فیصلے کو نافذ کردیا۔

یاد رہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام نے جج کے طور پر اجتہادی فیصلہ کیا تھا۔ اللہ بھی ان کے فیصلے کو دیکھ رہا تھا۔ اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو زیادہ مناسب اور مضبوط فیصلہ الہام کردیا اور سلیمان اسے جس طرح سمجھے وہ زیادہ اچھا تھا۔

حضرت دائود (علیہ السلام) نے نقصان کا محض تاوان ادا کرنے کی طرف خیال کیا۔ یہ تھا فقط انصاف۔ لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عدل کے ساتھ تعمیر و ترقی کا بھی خیال رکھا اور عدل کے نتیجے میں فریقین کو تعمیر و ترقی کے کام پر لگا دیا۔ عدل کی یہ دوسری صورت زیادہ مثبت ‘ مفید اور تعمیری ہے اور یہ اللہ کی توفیق اور الہام ہے کہ وہ جسے چاہے دے دے۔

حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام دونوں کو حکم ‘ علم اور فیصلے کے اختیار ات تھے۔

وکلا اتینا حکما وعلما (12 : 97) ” حکم اور علم ہم نے دونوں کو عطا کیا تھا “۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلے میں کوئی غلطی نہتھی لیکن حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ زیادہ اچھا تھا کیونکہ وہ الہام کے نتیجے میں ہوا تھا۔

اس کے بعد قرآن مجید ان مخصوص امور کا ذکر کرتا ہے جو حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیھما السلام کو علیحدہ علیحدہ دیئے گئے تھے ‘ پہلے حضرت دائود علیہ السلام۔

وسخرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا فعلین (12 : 97) وعلمنہ صنعۃ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شکرون (12 : 08) ” اور دائود کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا تھا جو تسبیح کرتے تھے ‘ اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے اور ہم نے اس کو تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی ‘ تاکہ تم کو ایک دوسرے کی مار سے بچائے ‘ پھر کیا تم شکر گزار ہو ؟ “

حضرت دائود (علیہ السلام) کے مزا میر مشہور ہیں۔ یہ اللہ کی حمد تھی جو وہ نہایت یہ خوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ ان کی آواز کی گونج سے انکا ماحول بھر جاتا تھا اور انکے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اسے دہراتے تھے۔

جب کسی بندے کا دل اپنے رب سے جڑ جاتا ہے تو وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ اس پوری کائنات کے ساتھ یکجا ہوگیا ہے اور اس پوری کائنات کا دل میرے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ تمام رکاوٹیں اور پردے ہٹ جاتے ہیں جو اللہ کی مخلوقات کے مختلف انواع واجناس کے درمیان اس دوئی کے شعور کی وجہ سے فاصلے پیدا ہوجاتے ہیں۔ جب انسان اس مقام پر پہنچ جائے تو ان تمام انواع کے ضمیر اس کائنات کے ضمیر کے ساتھ مل جاتے ہیں۔

بعض لمحات میں ایک ایسی روشنی سامنے آتی ہے کہ روح یہ محسوس کرتی ہے کہ وہ اس کائنات کے ساتھ ایک ہے۔ اس کے اندر سب کچھ آگیا ہے ‘ ایسے لمحات میں روح یہ نہیں محسوس کرتی کہ اس سے باہر بھی کچھ ہے۔ وہ یہ بھی محسوس نہیں کرتی کہ وہ اپنے ماحول سے علحدہ ہے۔ پورا ماحول روح انسانی میں گم اور انسان اپنے ماحول میں گم ہوجاتا ہے۔

نص قرآنی سے ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) خوش الحانی سے حمد پڑھتے تھے تو وہ اپنے ممتزیز ‘ مفصل اور مخصوص مقام میں موجود نفس کو بھول جاتے تھے۔ ان کی روح اس سایہ ربی میں چلی جاتی تھی جو اس کائنات پر سایہ لگن ہے۔ اس پوری کائنات پر خواہ وہ جمامد مخلوق ہو یا زندہ ‘ اس طرح حضرت دائود محسوس کرتے ھتے کہ انکے ساتھ یہ پوری کائنات حمد خواں ہے۔ اور جس طرح وہ ثنا خواں ہیں اس طرح وہ بھی ثنا خواں ہے۔ پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک کورس کی شکل میں ‘ ایک گروپ کی طرح اللہ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل گا رہی ہے۔

وان من شیئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تسبیحھم ” جو چیز بھی ہے وہ اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن تم اس کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔ اور اس تسبیح کو وہی شخص سمجھتا ہے جس کے سامنے سے پردے ہٹ جائیں ‘ فاصلے مٹ جائیں اور وہ روح کا ئنات اور ارواح کون ومکان کے ساتھ چلتا ہو ‘ جو سب کی سب اللہ کی سمت میں رخ کیے ہوئے ہیں۔

وسخرنا۔۔۔۔۔۔۔۔ وکنا فعلین (12 : 97) ” اور ہم نے دائود کے ساتھ پاڑوں اور پرندوں کو مسخر کردیا جو تسبیح کرتے تھے اور اس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے “۔ اللہ کے لیے مشکل ہی کیا ہے ؟ یا کیا کوئی چیز اللہ کے حکم سے سرتابی کرسکتی ہے جب اللہ چاہے۔ چاہے وہ لوگوں کے ہاں ہوا کرتی ہے یا نہیں ہوا کرتی۔