حضرت نوح نے انتہائی لمبی مدت تک اپنی قوم کو دعوت دی۔ مگر چند لوگوں کے سوا کسی نے اصلاح قبول نہ کی۔ آخر کار حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہلاکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ایسا سخت سیلاب آیا کہ پہاڑ کی چوٹیاں بھی لوگوں کو بچانے سے عاجز ہوگئیں۔
یہ واقعہ اگرچہ پیغمبر کی سطح پر پیش آیا۔ تاہم عام انسانوں کے لیے بھی اس میں بہت تسکین کا سامان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بگاڑ پیدا کرنے والے بالکل آزاد نہیں ہیں۔ اور سچائی کے لیے اٹھنے والا شخص بالکل اکیلا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص سچائی سے اس حد تک اپنے آپ کو وابستہ کرے کہ وہ دنیا میں سچائی کا نمائندہ بن جائے تو اس کے بعد وہ دنیا میں اکیلا نہیں رہتا۔ بلکہ خدا اس کے ساتھ ہوجاتا ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوجائے اس کو کون زیر کرسکتا ہے۔