You are reading a tafsir for the group of verses 21:68 to 21:69
قَالُوْا
حَرِّقُوْهُ
وَانْصُرُوْۤا
اٰلِهَتَكُمْ
اِنْ
كُنْتُمْ
فٰعِلِیْنَ
۟
قُلْنَا
یٰنَارُ
كُوْنِیْ
بَرْدًا
وَّسَلٰمًا
عَلٰۤی
اِبْرٰهِیْمَ
۟ۙ
3

قالوا۔۔۔۔۔۔۔ فعلین (86) ” ‘۔

کیا ہی زبردست خدا ہیں کہ بیچاروں کی نصرت ان کے پجاری کررہے ہیں ‘ وہ خود اپنے نفع و نقصان کے مالک ہی نہیں۔ نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں ‘ نہ اپنے بندوں کی۔ انہوں نے تو یہ حکم دیا کہ اسے جلا دو لیکن دوسری جانب سے بھی ایک حکم صادر ہوا ‘ یہ اصل حاکم مطلق کا حکم تھا ‘ اس نے پہلے حکم کو باطل کردیا۔

قلنا ینار کونی بردا وسلم ا علی ابرھیم (96) ” ہم نے کہا ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر “۔

چناچہ ان کا جلایا وہا الائو ابراہیم کے لیے ٹھنڈا بھی ہوگیا اور ان کے لیے سلامتی کا موجب بنا ‘ یہ کیسے ؟ یہ سوال صرف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) والے الائو کے بارے میں کیوں پیدا ہو رہا ہے ؟ لفظ کن اور کونی سے یہ کائنات وجود میں آگئی ‘ بڑے بڑے جہاں پیداہو گئے۔

انما امرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیکون (63 : 28) ” اس کا حکم یہ ہے کہ اس نے جب کسی چیز کا ارادہ کیا تو صرف یہ کہتا ہے کن تو ہوجاتی ہے “۔ اس لیے ہم یہ سوال کرتے ہی نہیں کی آگ نے کس طرح نہ جلایا ‘ حالانکہ مشہور اور معروف اور زیر مشاہدہ طریقہ تو یہ ہے کہ آگ زندہ جسموں کو جلا دیتی ہے۔ جب ذات باری نے آگ سے کہا کہ جلائو تو وہ جلانے لگی۔ اس ذات نے اسے کہا کہ نہ جلائو اور سرد ہو جائو تو وہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی۔ دونوں کلمات کا فرق صرف یہ ہے کہ ایک نتیجے کے ہم عادی ہیں اور دوسرے نتیجے کے ہم عادی نہیں۔

جو لوگ اللہ کے افعال کو انسانی افعال پر قیاس کرتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے سامنے یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ کیسے ہوگیا ؟ اور کیسے ممکن ہوا ؟ لیکن جو لوگ اس فرق کو سمجھتے ہیں کہ اللہ میں اور انسانوں میں فرق ہے ‘ تو ان کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ وہ ایسے واقعات کی علتیں تلاش نہیں کرتے۔ خواہ یہ علت سائنسی ہو یا غیر سائنسی ہو۔ کیونکہ یہ مسئلہ امر الہٰی کا ہے علت اور اسباب کا نہیں ہے ‘ خصوصاً انسانی پیمانوں کے مطابق سبب و مسبب کی تلاش کا نہیں ہے۔ معجزات کے سلسلے میں جو لوگ قرآن مجید کی تفسیر سائنسی پیمانوں یعنی علت و معلول (Cause and Effect) کے زاویہ سے کرتے ہیں وہ غلط لائن پر جاتے ہیں۔ معجزات کی تفسیر یہی ہے کہ ان کو امر الہٰی کے حوالے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ کے افعال کو ان پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا جن سے ہم انسانی پیمانوں کو ناپتے ہیں۔

ہمیں چاہیے اور یہ ہمارا فرض بھی ہے کہ ہم ان واقعات پر ایمان لائیں ‘ کیونکہ اللہ خالق اور صانع ہے اور ایک صانع اپنی مصنوعات کو جس طرح چاہے بنا سکتا ہے۔ یہ کیونکر ہوا کہ آگ سرد ہوگئی اور اس کے اندر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) صحیح و سلامت رہ گئے۔ قرآن کریم نے اس کی کوئی تشریح و تعلیل نہیں کی ہے کیونکہ ہم اپنے انسانی قوائے مدرکہ کے ساتھ اس چیز کا ادراک ہی نہیں کرسکتے۔ لہٰذا نص قرآن کے سوا ہمارے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہمیں مطالبہ کرنا چاہیے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو ٹھنڈا کردیا گیا اس کی مثالیں اس دنیا میں بھی واقعہ ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کا ہم نوٹس نہیں لیتے جس طرح اس اہم واقعہ کا نوٹس تاریخ نے لے لیا۔ تاریخ انسانی میں افراد پر اور جماعتوں پر اس سے بھی بڑے بڑے مظالم ہوتے رہے ہیں۔ اتنے ہولناک اور خوفناک مظالم کہ ان سے زندہ بچنے اور صحیح سلامت باہر آنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن پھر بھی لوگ نکل آتے ہیں۔ مظالم اور تشدد کی بڑے بڑے الائو جلائے جاتے ہیں اور ان میں ان لوگوں کو ڈالا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ زندہ بچ نکلتے ہیں اور مظالم اور تشدد کا یہ الائو ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ یہ الائو بظاہر تو بہت بڑا شر ہوتا ہے لیکن ان مظلوموں کے لیے وہ بہت بڑا خیر بن جاتا ہے۔

یہ معجزہ ہے کہ ” اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے “۔ افراد ‘ جماعتوں اور قوموں کی زندگی میں بار بار دہرای جاتا ہے ‘ خصوصاً افکار ‘ عقائد اور تحریکات کے زاویہ سے جب امرالہٰی آتا ہے تو انسانی اقوال باطل ہوجاتے ہیں۔ تمام سازشیں ختم ہوجاتی ہیں کیونکہ امرا لہٰی برتر حکم ہے۔