ثُمَّ
نُكِسُوْا
عَلٰی
رُءُوْسِهِمْ ۚ
لَقَدْ
عَلِمْتَ
مَا
هٰۤؤُلَآءِ
یَنْطِقُوْنَ
۟
3

ثم نکسوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ینطقون (56) ’ واقعی پہلے فقرے میں وہ اپنے دلوں اور دماغوں کی طرف لوٹ آئے تھے اور دوسرے فقرے میں جو ہے کہ وہ اپنے سروں کو چھوڑ کر الٹے پھرے تو گویا الٹے پائوں پھرے اور اپنے سروں سے سوچ کا کام لینا بھی انہوں نے چھوڑدیا۔ پہلی حرکت اپنے ضمیر کی طرف تھی کہ سوچیں اور تدبیر کریں اور دوسری حرکت واپسی کی تھی اور سوچ اور تدبر کو ترک کر کے پھر واپس ہوئے اور ان کے منہ سے جو بےعقلی کی بات نکلی وہی ان کے خلاف حجت تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل ہی یہ تھی کہ دیکھو یہ بات بھی نہیں کرسکتے۔

جب وہ یہاں تک آگئے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیساحلیم الطبع شخص بھی ان پر قدرے غصہ کرتا ہے کیونکہ ان کی یہ کم عقلی اس قدر واضح ہے کہ اس پر آدمی کے لیے صبر کرنا مشکل ہے۔