قال بل۔۔۔۔۔۔۔ ان کانوا ینطقون (36) ۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس جواب میں چھنا ہوا مذاق تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس سنجیدہ مذاق کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے یہ جھوٹی بات کی۔ مفسرین نے اس فقرے کے اسباب اور توجیہات میں جو طویل کلام کیا ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ معاملہ تو بہت ہی سادہ ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ لوگوں کو بتائیں کہ یہ مورتیاں اتنا بھی نہیں جانتیں کہ ان کو توڑا کس نے ہے ؟ میں نے توڑا ہے یا اس بڑے بت نے توڑا ہے ؟ جو کوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ یہ تو محض جمادات ہیں اور ان کے اندر تو قوت مدر کہ ہے ہی نہیں۔ تم آدمی ہوتے ہوئے بھی ایسے ہو کہ تمہاری قوائے مدر کہ جامد ہوچکی ہیں۔ تم کسی ممکن الوقوع اور جائز کام میں اور ایک ایسے امر میں فرق نہیں کرسکتے جو ناممکن الوقوع ہے۔ تم یہ انکوائری اس لیے کررہے ہو کہ میں نے ان کو توڑا ہے یا اس بڑے بت نے تو پھر ان سے پوچھو اگر یہ بات کرسکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس عجیب مذاق نے ان کو ایک لمحے کے لیے تو ہلاکررکھ دیا ہے۔ وہ سوچنے لگے ‘ کچھ غور کرنے لگے۔