فَجَعَلَهُمْ
جُذٰذًا
اِلَّا
كَبِیْرًا
لَّهُمْ
لَعَلَّهُمْ
اِلَیْهِ
یَرْجِعُوْنَ
۟
3

فجعلھم۔۔۔۔ یرجعون (85) ” ‘۔ ہوا کیا ؟ تمام بتوں کو ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ وہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کا ڈھیر بنا دیئے گئے اور جو لکڑی کے تھے وہ توڑی ہوئی لکڑیوں کی شکل میں رہ گئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سب سے بڑے بت کو رہنے دیا۔

لعلھم الیہ یرجعون (12 : 85) ” شاید وہ اس کی طرف رجوع کریں “۔ اور اس سے پوچھیں کہ یہ واقعہ کس طرح رونما ہوا اور وہ کیوں ان چھوٹے بتوں کی مدافعت کے لیے نہ اٹھا۔ شاید اس طرح وہ اس پورے مسئلے پر از سرنو غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں اور راہ راست پر آجائیں۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ بتوں کی پرستش ایک لغوا مر ہے۔

جب لوگ آئے ‘ انہوں نے دیکھا کہ ان کے بت ریزہ ریزہ زمین پر پڑے ہیں۔ صرف بڑا بت بت کی طرح کھڑا ہے لیکن انہوں نے اس سے کچھ نہ پوچھا۔ خود بھی انہوں نے غور نہ کیا کہ اگر ہی خدا تھے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک کیسے ہوگیا اور یہ جو کھڑا ہے اگر بڑا خدا ہے تو اس نے ان چھوٹے خدائوں کی مدافعت کیوں نہ کی ؟ انہوں نے اپنے ذہنوں میں یہ سوال پیدا وہنے نہ دیا پیدا ہی نہ ہوا کیونکہ جب عقل میں خرافات بیٹھ جائیں تو عقل معطل ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اصل کام چھوڑدیتی ہے۔ جب لوگ جامد تقلید کرنے لگیں تو بھی ان کی عقلوں پر تالے پڑجاتے ہیں اور وہ کسی معاملے پر غور و فکر اور تامل و تدبر نہیں کرتے۔