قَالَ
بَلْ
رَّبُّكُمْ
رَبُّ
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ
الَّذِیْ
فَطَرَهُنَّ ۖؗ
وَاَنَا
عَلٰی
ذٰلِكُمْ
مِّنَ
الشّٰهِدِیْنَ
۟
3

قال بل۔۔۔۔۔۔۔ من الشھدین (65) ‘۔

اللہ تو رب واحد ہے۔ وہی آسمانوں اور زمین کا رب ہے ‘ اور وہ اس لیے رب ہے کہ وہ ان کا پیدا کرنے والا ہے یعنی وہ الہٰ واحد ہے۔ دو صفات کی وجہ سے اور ان میں جدائی ممکن نہیں ہے۔ ایک یہ کہ وہ زمین و آسمان کا رب ہے۔ ان کو چلانے والا ہے اور دوسری صفت یہ ہے کہ ان کو پیدا بھی اس نے کیا۔ یہ تو درست عقیدہ ہے لیکن مشرکین عرب کا عقیدہ نہایت ہی معقول ہے کہ وہ اپنے بتوں کو رب تو مانتے تھے لیکن خالق نہ مانتے تھے۔ خالق وہ بھی صرف اللہ کو مانتے تھے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے کہ دوسرے الہوں نے کسی چیز کی تخلیق نہیں کی پھر بھی ان کی پوجا کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک ایسے گواہ کی طرح گواہی دیتے ہیں جس کوئی شک نہیں ہوتا۔

وانا علی ذلکم من الشھدین (12 : 65) ” اس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں “۔ زمین و آسمان کی تخلیق کے وقت حضرت ابراہیم موجود نہ تھے۔ نہ وہ اپنے نفس اور اپنی قوم کی تخلیق پر چشم دید گواہ تھے۔ لیکن یہ معاملہ اس قدر واضح ‘ ثابت شدہ ہے کہ ایک مومن اس پر چشم دید گواہ کی طرح گواہی دے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کی ہر چیز وحدت خالق پر ناطق ہے۔ انسانی شخصیت کے جو جو کمالات ہیں ‘ جسمانی و ذہنی وہ سب کے سب برہان ناطق ہیں کہ خالق ایک ہے اور وہی مدبر ہے۔ وہ قانون قدرت بھی ایک ہی ہے جو اس پوری کائنات کو مع انسان کے چلا رہا ہے اور اس میں متصرف ہے ‘ جس طرح چاہیے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم سے جو شخص یہ گفتگو کررہا تھا ‘ اس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہہ دیا کہ ان کے بتوں کے بارے میں میں نے ایک فیصلہ کرلیا ہے۔ اس پر ضرور عمل ہوگا۔