قَالُوْۤا
اَجِئْتَنَا
بِالْحَقِّ
اَمْ
اَنْتَ
مِنَ
اللّٰعِبِیْنَ
۟
3

قالوا۔۔۔۔۔۔۔ من اللعبین (55) ” ‘۔

یہ سوال ایک ایسے شخص کا سوال نظر آتا ہے جسے خوداپنے فکرو عمل پر پورا اطمینان نہ ہو۔ کیونکہ وہ جو عقدہ رکھتا ہے ‘ جو عمل کرتا ہے اس پر اس نے کبھی سوچا نہیں تحقیق نہیں کی۔ یہ کام وہ محض وہم اور تقلید اور بےسوچے سمجھے کررہا ے۔ وہ نہیں جانتا کہ حق کیا ہے حالانکہ عقائد و عبادات وہ چیز ہے جو مستند دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ جو افراد و اقوام عقیدہ توحید کے صاف ستھرے تصور سے محروم ہوں وہ اسی طرح کے اوہام کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کے افکار بھی صاف ستھرے اور واضح نہیں ہوتے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ذرا دیکھئے کہ وہ کس قدر اعتماد و یقین سے بات کرتے ہیں۔ ان کو رب کی صحیح معرفت حاصل ہے۔ وہ ایک مومن کی طرح ٹھوس بات کرتے ہیں۔