انکا جواب اور دلیل صرف یہ تھی۔
قالوا وجدنآ ابناء نا لھا عبدین (35) ” اس جواب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم باپ دادا کی تقلید کرتی ہے تو اس کی سوچ اور اس کی عقل کی قوتیں منجمد ہوجاتی ہیں جبکہ ایمان انسان کو آزادی ‘ فکر و نظر کی وسعت ‘ اور ہر چیز اور ہر صورت حال کا حقیقی جائزہ لینے کی تعلیم دیتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ ہر بات پر غور کرکے اس کا حقیقی وزن کرو۔ لہٰذا اللہ پر پختہ ایمان کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے۔ یعنی عقیدہ توحید اور شرک کا کہ انسان اوہام ‘ جامد تقلید اور وہی تصورات و عقائد سے چھوٹ جاتا ہے۔ وہ موروثی رواج جن کی پشت پر نہ احادیث ہیں اور نہ دلیل ان کو بسہولت ترک کردیتا ہے۔