الذین یخشون ربھم بالغیب (12 : 94) ” جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈریں “۔ اس لیے کہ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور انہوں نے اللہ کو دیکھا ہی نہ ہو اور
وھم من الساعۃ مشفقون (12 : 94) ” اور ان کو اس گھڑی کا کھٹکا لگا ہوا ہو “۔ اور اس کے لیے تیاری اور عمل کرتے ہوں تو ایسے ہی لوگ اس روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور راہ ہدایت اختیار کرتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں کے لیے کتاب نصیحت بن جاتی ۔ یہ ان کو اللہ کی طرف مڑنے کی یاد دہانی کراتی رہتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کے اندر ان کا تذکرہ ہوتا ہے گویا وہ ان کی پہچان بن جاتی ہے۔
یہ تھی حضرت موسیٰ اور ہارون کی شان وھذا ذکر مبرک (12 : 05) ” اب یہ بابرکت ذکر ہم نے نازل کیا ہے “۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘ کوئی عجیب چیز نہیں ہے۔ یہ تو ایک ایسا واقعہ ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ یہ اللہ کی معلوم و معروف سنت ہے۔
افانتم لہ منکرون (12 : 05) ” پھر کیا تم اسے قبول کرنے سے انکاری ہو “۔ آخر اس میں تمہیں کیا چیز انوکھی لگ رہی ہے۔ کیا اس سے قبل اللہ کے رسول نہیں آتے رہے۔
حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے قصے پر ایک نہایت ہی سرسری نظر ڈالنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کی ایک مکمل کڑی یہاں دی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عربوں کے جداکبر ہیں۔ خانہ کعبہ کے بانی ہیں ‘ جس کو قریش نے بتوں سے بھر رکھا تھا اور رات اور دن ان کی بندگی اور پرستش کرتے تھے حالانکہ حضرت ابراہیم تو مشہور ہی اس لیے تھے کہ انہوں نے بت توڑے تھے۔ یہاں ان کے قصے کو پیش کرنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ تم بتوں کی پرستش کرتے ہو ‘ جبکہ وہ بت شکن تھے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات زندگی کی یہ کڑی بہت ہی مشہور ہے۔ اس کے کئی مناظر یہاں پیش کیے گئے ہیں۔ ان مناظر کے درمیان بیشک چھوٹے چھوٹے گیپ بھی ہیں۔ آغاز اس سے ہوتا ہے کہ ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے رسالت اور ہدایت عطا کردی تھی اور وہ عقیدہ توحید پر قائم تھے۔ ” رشدہ “ سے مراد ہی عقیدہ توحید ہے کیونکہ اس فضا میں سب سے بڑی ہدایت تھی ہی عقیدہ توحید کی طرف ہدایت۔