بَلْ
قَالُوْۤا
اَضْغَاثُ
اَحْلَامٍ
بَلِ
افْتَرٰىهُ
بَلْ
هُوَ
شَاعِرٌ ۖۚ
فَلْیَاْتِنَا
بِاٰیَةٍ
كَمَاۤ
اُرْسِلَ
الْاَوَّلُوْنَ
۟
3

بل قالو۔۔۔۔۔۔۔ شاعر (12 : 5) ” وہ کہتے ہیں بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں بلکہ یہ اس کی من گھڑت بات ہے بلکہ یہ شخص شاعر ہے “۔ یہ بلکہ بلکہ ہی کرتے رہیں گے ‘ کسی ایک بات پر بھی جم نہیں سکتے ‘ نہ ان کی ایک رائے ہے ‘ اصل بلکہ یہ ہے کہ دراصل یہ لوگ مختلف تدابیر اختیار کرتے ہیں کہ قرآن کے ان ولولہ انگیزاثرات کو کس طرس روکیں ‘ جو لوگوں پر اثر کررہے اور یہ لوگ دعوے پر دعویٰ کرتے چلے آرہے ہیں ‘ ایک سبب کے بعد دوسرا سبب لاتے ہیں۔ لیکن سخت حیراں ہیں ‘ کسی ایک بات پر جمتے نہیں ‘ اس لیے تمام حرکتوں اور اقوال کو چھوڑ کر آئو اس طرف آتے ہیں کہ کوئی ایسا معجزہ دکھا دیا جائے جو گزرے ہوئے رسولوں نے دکھائے تھے۔

فلیاتنا بأیۃ کمآ ارسل الاولون (12 : 5) ” ورنہ یہ لائے کوئی ایسی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے “۔ ہاں اس سے قبل رسولوں نے خارق عادت معجزات دکھائے تھے لیکن کیا جن کے سامنے معجزے پیش ہوئے تھے وہ سب ایمان لائے تھے۔ نہیں وہ تو ایمان نہ لائے اسی لیے تو ہلاک ہوئے اور یہ سنت الہیہ ہے۔ اٹل سنت الہیہ کہ جب کوئی خارق عادت معجزہ پیش ہوجائے اور پھر بھی لوگ نہ مانیں تو ان کو تباہ کرنا لازم ہے۔