وَلَىِٕنْ
مَّسَّتْهُمْ
نَفْحَةٌ
مِّنْ
عَذَابِ
رَبِّكَ
لَیَقُوْلُنَّ
یٰوَیْلَنَاۤ
اِنَّا
كُنَّا
ظٰلِمِیْنَ
۟
3

ولئن مستھم۔۔۔۔۔۔۔۔ انا کنا ظلمین ” ۔ لفظ نفحہ کا اطلاق خیر اور رحمت کے مفہوم میں ہوتا ہے یعنی جھونکا۔ یہاں مراد ہے عذاب الہٰی یعنی عذاب الہیٰ کا ایک ہلکا جھونکا بھی انہیں چھو جائے تو یہ اعتراف گناہ کرلیں گے لیکن اس وقت پھر اعتراف کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اس سے کقبل اس سورة میں بستیوں والوں کی یہ پکار گزر گئی ہے کہ جب ان پر عذاب آیا تو انہوں نے اعتراف کرلیا۔

یویلنآ۔۔۔۔۔۔ خمدین (51) (12 : 41۔ 51) ” ہائے ہماری کم بختی ‘ بیشک ہم خطا وار تھے اور یہی پکار تے رہے یہاں تک کہ ہم نے ان کو کھلیان کردیا ‘ زندگی کا ایک شرارہ تک ان میں نہ رہا “۔ لیکن یہ اعتراف بعد ازوقت تھا۔ لہٰذا ان کے لیے بہتر ہے کہ اس تنبیہ کو قبل ازوقت قبول کرلیں قبل اسکے کہ عذاب الہی کا ایک جھونکا ان پر آجائے۔

یہ سبق قیامت کے حساب و کتاب کے ایک آخری منظر پر ختم ہوتا ہے۔