بَلْ
مَتَّعْنَا
هٰۤؤُلَآءِ
وَاٰبَآءَهُمْ
حَتّٰی
طَالَ
عَلَیْهِمُ
الْعُمُرُ ؕ
اَفَلَا
یَرَوْنَ
اَنَّا
نَاْتِی
الْاَرْضَ
نَنْقُصُهَا
مِنْ
اَطْرَافِهَا ؕ
اَفَهُمُ
الْغٰلِبُوْنَ
۟
3

بل متعنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افھم الغلبون (44) ” ۔ درحقیقت ہم نے ان کو اور ان کے آبائو اجداد کو موروثی طور پر خوشحال بنایا تھا ‘ اسدولتمندی نے ان کی فطرت کو بگاڑ دیا تھا۔ ان کا دماغ خراب ہوگیا تھا۔ اور انکے احساسات اور میلانات بدل گئے تھے۔ خدا کے ساتھ ان کا تعلق کمزور پڑگیا تھا اور اس کائنات میں ذات باری پر دلالت کرنے والے جس قدر دلائل تھے ان پر یہ غور نہ کرتے تھے۔ یہ تھی ان کی آزمائش مگر یہ آزمائش خوشحالی کے ساتھ کی گئی اور خوشحالی میں اگر اللہ کسی کا امتحان لے تو وہ سخت ہوتا ہے حالانکہ دولتمندی میں یاد الہٰی اور اللہ کے ساتھ تعلق کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

چناچہ قرآن مجید ان لوگوں کے احساس کو ایک دوسرا منظر پیش کرکے جگا نا چاہتا ہے۔ یہ منظر بھی ہر وقت اس کرئہ ارض پر حقیقی واقعات کی شکل میں دہریایا جاتا ہے کہ ایک بڑی مملکت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر سکڑ جاتی ہے ایک عظیم مملکت سے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن جاتی ہیں۔ ایک بڑی قوت ہونے اور دنیا پر غالب ہونے کے بعد یہ مغلوب ریاستیں بن جاتی ہے۔ اور ایک نہایت ہی بڑی ریاست چھوٹی ریاست بن جاتی ہے۔ بڑی تعدا کم تعداد ہوجاتی ہے اور مالدار مملکت کے بجائے ایک غریب مملکت بن جاتی ہے۔

انداز کلام یوں ہے کہ وست قدرت ان بڑی بڑی مملکتوں کو سیکڑ دیتا ہے۔ جب تخیل اپنا کام کرتا ہے تو نہایت خوں انگیز منظر سامنے آتا ہے۔ اقوام کے مددجزر کی وھیمی حرکت نہایت ہی خوفناک نتائج پیدا کرتی ہے۔

افھم الغلبون (12 : 44) ” کیا یہی غالب ہوں گے “۔ کیا ان کے ساتھ وہی کچھ نہ ہوگا جو دوسری اقوام کے ساتھ رات اور دن ہو رہا ہے۔ اقوام کے مدد جزر کے اس خوفناک منظر کے بعد حضور اکرم ﷺ کو کہا جاتا ہے کہ ان کو ایک آخری ڈر اوا اور وارننگ دے دیں۔