لویعلم الذین کفروا۔۔۔۔۔۔ ماکانوا بہ یستھزء ون (93 : 14) ”
اگر انکو علم ہوجائے کہ ان کی حالت کیا ہوگی ‘ تو ان کا رویہ یہ نہ ہوتا ‘ جواب ہے۔ یہ عذاب میں نہ جلدی کا مطالبہ کرتے اور نہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مذاق کرتے۔ ان کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس وقت ہوگا کیا۔ وہاں ان کی حالت یہ وہگی کہ ہر طرف سے آگے کے شعلے انہیں نوچ رہے ہوں گے ‘ جھلسا رہے ہوں گے اور یہ اپنے آپ کو بچانے کی نااکم کوششیں کررہے ہوں گے ‘ قرآن اس کی تصویر اس طرح کھینچتا ہے کہ چہروں پر شعلے حملہ کریں گے ‘ پیٹھوں پر کریں گے اور یہ کسی طرح کا دفاع نہ کرسکیں گے بلک یہ آگ ہمہ جہست ان پر شعلہ بار ہوگی اور یہ کسی شعلے کو رد نہ کرسکیں گے ‘ نہ موخر کرسکیں اور نہ انکو اس عذاب سے ذرا سی مہلت ملے گی۔
یہ آگ اچانک ان پر آئے گی ‘ اس لیے کہ یہ لوگ بہت جلدی کرتے تھے۔ ان لوگوں کا تو تکیہ کلام ہی یہ تھا۔
متی ھذا الوعد ان کنتم صدقین (12 : 83) ” یہ وعدہ کب پورا ہوگا اگر تم سچے ہو “۔ اس کا جواب تو یہ ہوا کہ اچانک ان پر ہر طرف سے شعلہ باری ہوگی۔ وہ حیران ہوجائیں گے اور ان کی عقل اب کچھ نہ کرسکے گی۔ نہ سوچ سکیں اور نہ کوئی دفاع کرسکیں گے اور نہ دفاعی منصوبہ بندی کے لیے کوئی مہلت ملے گی۔
یہ تو ہوگا آخرت کا عذاب۔ رہا دنیا کا عذاب تو وہ اس قسم کے مذاق کرنے والوں پر تاریخ میں بار بار آیا ہے۔ مشرکین مکہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اگر چہ اللہ نے ان کے لیے سرے سے مٹانے کا عذاب مقدر نہیں کیا لیکن قتل ‘ قید اور مغلوبیت کا عذاب تو تم پر آسکتا ہے۔ لہٰذا اس کم درجے کے عذاب سے بھی یہ مذاق کرنے والے محفوظ نہیں ہیں۔ ورنہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرنے والوں کا انجام تو تاریخ نے بار ہاریکارڈ کیا ہے۔ جب یہ سنت الہیہ کے مطابق آتا ہے تو پھر ملتا نہیں ہے اور اس کے نظارے ان لوگوں کی تاریخ میں کئی ہیں جو رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے رہے ہیں۔
آیا رحمن کے سوا اور کوئی ہے جو رات اور دن انہیں بیشمار مصیبتوں سے بچاتا ہے۔ کیا دنیا کے عذاب یا آخرت کے عذاب سے ‘ اللہ کے سوا انہیں کوئی اور بچانے والا ہے کہ یہ اس قدر شتابی کرتے ہیں ؟