عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔
فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔