You are reading a tafsir for the group of verses 21:37 to 21:38
خُلِقَ
الْاِنْسَانُ
مِنْ
عَجَلٍ ؕ
سَاُورِیْكُمْ
اٰیٰتِیْ
فَلَا
تَسْتَعْجِلُوْنِ
۟
وَیَقُوْلُوْنَ
مَتٰی
هٰذَا
الْوَعْدُ
اِنْ
كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ
۟
3

خلق الانسان۔۔۔۔۔ ان کنتم صدقین ”

انسان پیدا ہی جلد بازی سے کیا گیا ہے۔ عجلت اس کے مزاج اور اس کی تخلیق میں رکھی گئی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی نظریں اس پر لگائے رکھتا ہے کہ مستقبل کے پردے کے پیچھے سے کیا نمودار ہوتا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ مستقبل کے راز بھی یہ ہاتھ میں لے لے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے تمام تاثرات حقیقت کا روپ اختیارکر لیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ جو وعدے ہوتے ہیں وہ اس کے سامنے آجائیں اگرچہ انمیں اس کو تکلیف ہی ملے۔ یہ صورت حال تب بدلتی ہے جب انسان کا رابطہ اللہ کے ساتھ قائم ہوجائے۔ اس صورت میں اس کی زندگی میں ٹھہرائو آجاتا ہے۔ وہ مطمئن ہوجاتا ہے اور اپنے معاملات اللہ کے سپرد کردیتا ہے ‘ پھر جلد بازی نہیں کرتا۔ ایمان نام ہی یقین ‘ صبر اور اطمینان کا ہے۔

یہ مشرکین جو عذاب کے آنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کہتی ہیں کہ جلدی کیوں نہیں آتا ‘ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ قیامت کب آئے گی یعنی عذاب آخرت کب ہوگا اور عذاب دنیا کب آئے گا جس سے تم ڈراتے ہو۔ اس موقع پر صرف عذاب آخرت کا ایک منظر ان کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے اور ڈرایا جاتا ہے کہ تم سے قبل بھی کئی لوگوں نے اس قسم کا مذاق کیا تھا ‘ لیکن جب عذاب آیا تو وہ سامان عبرت بن گئے۔