خُلِقَ
الْاِنْسَانُ
مِنْ
عَجَلٍ ؕ
سَاُورِیْكُمْ
اٰیٰتِیْ
فَلَا
تَسْتَعْجِلُوْنِ
۟
3

آیت 37 خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ط ”یعنی انسان کی خلقت میں عجلت پسندی رکھی گئی ہے۔ عجلت پسندی انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ اس حوالے سے یہ نکتہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ انسان کی ذات یا شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ مادی ‘ جسمانی یا حیوانی ہے جس کی تخلیق زمین یعنی مٹی سے ہوئی ہے۔ اس مادی وجود میں بہت سی کمزوریاں اور کوتاہیاں رکھی گئی ہیں۔ سورة النساء کے یہ الفاظ اس حقیقت پر شاہد ہیں : وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا کہ بنیادی طور پر انسان کمزور اور ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔ انسانی ذات کا دوسرا پہلو روحانی ہے۔ انسانی روح چونکہ نور سے پیدا کی گئی ہے اس لیے اس کا یہ پہلو بہت بلند اور ارفع ہے۔ اسی پہلو کے بارے میں سورة التین میں فرمایا گیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ”ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے“۔ گویا اصل انسان تو وہ روح ہی ہے جو انسانی تخلیق کے مرحلہ اوّل وضاحت کے لیے الانعام : 94 کی تشریح ملاحظہ ہو میں اَحْسَنِ تَقْوِیْم کی کیفیت میں پیدا کی گئی۔ اس ”نور“ کو پھر اس انسانی جسم کے اندر رکھا گیا جو مٹی سے بنا ہے۔ اور اسی وجہ سے اس میں بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ فطری اور جبلی طور پر عجلت پسند ہے۔سَاُورِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ ”کیا عجب کہ تمہارے عذاب کے بارے میں وعیدوں کے پورا ہونے کا وقت قریب ہی آ لگا ہو۔