وَاِذَا
رَاٰكَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْۤا
اِنْ
یَّتَّخِذُوْنَكَ
اِلَّا
هُزُوًا ؕ
اَهٰذَا
الَّذِیْ
یَذْكُرُ
اٰلِهَتَكُمْ ۚ
وَهُمْ
بِذِكْرِ
الرَّحْمٰنِ
هُمْ
كٰفِرُوْنَ
۟
3

درس نمبر 141 ایک نظر میں

اس سے قبل کے سبق میں ہم نے دور تک اس کائنات کا سفر کیا۔ اس کائنات میں قوانین قدرت کا مطالعہ کیا ‘ انسانیت کا انجام تاریخی واقعات کی روشنی میں دیکھا۔ اس سبق میں روئے سخن اسی مضمون کی طرف مڑ جاتا ہے جس کا سورة کے آغاز میں ہم نے مطالعہ کرلیا ہے کہ مشرکین نے حضور ﷺ کا اور آپ پر آنے والی وحی کا استقبال مذاق سے کیا اور شرک پر اصرار کرتے رہے۔

اس کے بعد اس سبق میں انسان کی فطرت کی عجلت پسندی اور سیہاہیت کا ذکر ہوا ہے یہاں تک کہ یہ لوگ عذابالہٰی لے آنے میں بھی بہت جلدی کرتے ہیں۔ ان کو ان کی اس حرکت پر متنبہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ مذاق کرنے کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ ان کو ان کی اس حرکت پر متنبہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ مذاق کرنے کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔ ان کو اس سبق میں یہاں با اثر ‘ غالب اور اقتدار قبضہ کرنے والوں کے سایہ اقتدار کے سکڑنے کا ایک منظر بھی دکھایا جاتا ہے اور عذاب آخرت کا ایک منظر بھی دیکھا یا جاتا ہے۔

سبق کا خاتمہ اس مضمون پر ہوتا ہے کہ یوم آخرت میں مجرمین سے سخت حساب لیاجائے گا۔ چناچہ آخر میں حساب آخرت ‘ قوانین فطرت ‘ انسان کی فطرت اور انسان کی زندگی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سنت اور داعیان اسلام کے بارے میں سنت الہیہ کے مضامین کو باہم ملایا جاتا ہے۔

واذا راک الذین۔۔۔۔ کفرون (62)

یہ کفار خود تو رحمن کے وجود ہی کا انکار کرتے ہیں ‘ حالانکہ وہ اس کائنات کا خالق اور مدبر ہے اور رسول اللہ ﷺ کی جانب ان کے الہوں اور بتوں پر جو معقول تبصرہ کیا جاتا ہے اسے پسند نہیں کرتے لیکن وہ خود جب رحمن کا انکار کرتے ہیں تو اس میں کوئی ہرج محسوس نہیں کرتے حالانکہ وہ رحمن کے بندے ہیں اور پھر قرآنی تعلیمات کا انکار کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی فطرت میں بےحد بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اور وہ جس پیمانے سے دیتے ہیں اس سے لیتے نہیں ‘ اور حقائق کا فیصلہ غلط کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ ان کو جس عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں ‘ اس کے بارے میں یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلدی کیوں نہیں اتا حالانکہ حضور ﷺ ان کو اس سے ڈراتے ہیں۔ یہ جلدی وہ اس لیے کرتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں جلد بازی ہے۔