مکہ میں جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے وہ وسائل کے اعتبار سے آپ سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کو اس وقت کے ماحول میں عزت اور برتری حاصل تھی۔ اس فرق کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ وہ حق پر ہیں اور محمدؐ ناحق پر۔ مگر دنیوی چیزوں کی زیادتی اور کمی حق اور ناحق کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتی ہے۔ یہ خدا کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ دنیوی سامان پاکر اگر کوئی شخص اپنے کو بڑا سمجھنے لگے تو گویا وہ اپنے کو ان چیزوں کا نااہل ثابت کررہا ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں اس کو ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جائے۔
مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام کرنے کے لیے ہر قسم کی مخالفانہ کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ حتی کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کا خاتمہ کردیں تاکہ یہ مشن اپنی جڑ سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ فرمایا کہ پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرنے والے لوگ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جس قبر میں وہ دوسرے کو داخل کرنا چاہتے ہیں اسی قبر میں بالآخر انھیں خود بھی داخل ہونا ہے۔ پھر موت کے بعد جب ان کا سامنا مالک حقیقی سے ہوگا تو وہاں وہ کیا کریں گے۔