وما جعلنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والینا ترجعون ”
کل نفس ذائقۃ الموت (12 : 53) ” ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے “۔ یہ قانون قدرت اس کرئہ ارض پر حیات پر لاگو ہی اور اس قاعدے میں کوئی استثناء نہیں ہے۔ لہٰذا تمام زندوں کو ‘ تمام عقلمند زندوں کو اس مذاق کا خیال رکھنا چاہیے۔
موت ہر زندہ چیزکا انجام ہے۔ زمین میں انسان کا ایک مختصر سفر ہے۔ سب نے اللہ کی طرف لوٹنا ہے۔ یہاں سفر کے دوران انسان کو جو حالات پیش آتے ہیں یہ تو اس کے لیے آزمائش ہے ‘ ایک امتحان ہے۔
ونبلوکم بالشر والخیر فتنۃ (12 : 53) ” اور ہم اچھے اور برے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کررہے ہیں “۔ شر میں مبتلا کر کے آزمائش سمجھ میں آتی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ کون کس قدر صبر کرتا ہے ‘ کس قدر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اسے کس قدر رحمت خداوندی پر یقین ہے لیکن بھلائی اور خیر میں آزمائش کیسی ؟ اس کی تشریح کی ضرورت ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بھلائی اور خیر میں آزمائش زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اگرچہ لوگ اسے شر کی آزمائش سے کم تر سمجھتے ہیں۔ اکثر لوگ شر میں آزمائش کا مقابلہ تو کرلیتے ہیں لیکن خیر میں ان سے آزمائش کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ بیماری اور ضعف میں لوگ شر کا مقابلہ کرتے ہیں لیکن صحت اور عافیت میں کم لوگ آزمائش کا مقابلہ کر ست کے ہیں۔ ان کے پاس اختیارات کی اندھی قوت ہوتی ہے یا جسمانی اندھی قوت ہوتی ہے۔ اس کے استعمال میں وہ فیل ہوجاتے ہیں۔ بیشمار لوگ ایسے ہوں گے جو فقرو فاقہ برداشت کریں گے اور ان کے نفوس کبھی بھی ان کو ذلت اور برے طریقوں پر رزق حرام پر آمادہ نہ کرسکیں گے لیکن کم ہیں جو دولتمندی کی آزمائش میں پورے اتریں۔ دولت کا حق ادا کریں ‘ تکبرو غرور نہ کریں اور عیش و عشرت سے بچیں۔
بہت لوگ ہوں گے جو تشدد کو برداشت کریں گے اور ڈراوے اور دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہ کریں گے لیکن کم لوگ ہوں جو امن و عافیت کے دور میں مرغوبات ‘ منصب اور سازو سامان کی کشش کا مقابلہ کرسکیں۔
بہت لوگ ایسے ملیں گے جو مارپیٹ اور جسمانی اذیت اور زخموں کا مقابلہ کریں گے لیکن کم ایسے ہوں گے جو عیش و عشرت سے صبر کرسکیں یا طمع و لالچ کے مقابلے میں سیدھے کھڑے ہو سکیں کیونکہ دنیا کا لالچ بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیتا ہے اور لوگ اس قدر سست پڑجاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں ٹوٹ جاتی ہیں اور روحانی طور پر وہ ذلت اختیار کرلیتے ہیں۔
تشدد اور جسمانی تعذیب کے نتیجے میں انسان کی خودی بیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے اعصاب میں قوت برداشت پیدا ہوجاتی ہے اور جسم کی تمام قوتیں تشدد برداشت کرنے کے لیے صف آرا ہوجاتی ہیں۔ لیکن خو شحالی ! یہ بہت ہی خطرناک ابتلاء ہے۔ اس سے اعصاب ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ جسمانی قوت مدافعت پر غنودگی طاری ہوجاتی ہے اور بیداری اور جدوجہد کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ ہم نے بہت سے ایسے تجربے کئے ہیں کہ تشدد اور جسمانی تعذیب میں ایک کارکن بہت ہی کامیاب رہا ‘ مقابلہ کرتارہا لیکن جب خوشحالی آگئی ‘ تو خوشحالی اور فراوانی کی آزمائش میں وہ فیل ہوگیا ۔
یہ ہے انسان یک کہانی۔ الا وہ لوگ جنہیں اللہ بچالے اور جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :” مومن کی شان بھی عجیب ہے کہ اس کا کام ہر حال میں کامیابی ہے۔ اور یہ سہولت صرف اہل ایمان کو حاصل ہے اور کسی کو نہیں۔ اگر اسے خوشحالی مل جئے تو وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہے ‘ تو وہ اس کے لیے خیر ہوجاتی ہے ‘ اگر اس پر مشکل دن آجاتے ہیں توہ صبر کرتا ہے ‘ تو یہ برے دن بھی اس کے لیے اچھے ہوجاتے ہیں “۔ لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔
لہٰذا انسان کو عموماً اور تحریک اسلامی کے کارکن کو خصوصاً برے دنوں کے مقابلے میں اچھے دنوں میں زیادہ چوکنارہنا چاہیے البتہ دونوں حالات میں رب تعالیٰ کے ساتھ حقیقی تعلق ہی کامیابی کی اصل ضمانت ہے۔