You are reading a tafsir for the group of verses 21:31 to 21:33
وَجَعَلْنَا
فِی
الْاَرْضِ
رَوَاسِیَ
اَنْ
تَمِیْدَ
بِهِمْ ۪
وَجَعَلْنَا
فِیْهَا
فِجَاجًا
سُبُلًا
لَّعَلَّهُمْ
یَهْتَدُوْنَ
۟
وَجَعَلْنَا
السَّمَآءَ
سَقْفًا
مَّحْفُوْظًا ۖۚ
وَّهُمْ
عَنْ
اٰیٰتِهَا
مُعْرِضُوْنَ
۟
وَهُوَ
الَّذِیْ
خَلَقَ
الَّیْلَ
وَالنَّهَارَ
وَالشَّمْسَ
وَالْقَمَرَ ؕ
كُلٌّ
فِیْ
فَلَكٍ
یَّسْبَحُوْنَ
۟
3

یہاں زمین کی چند نمایاں نشانیوں کا ذکر ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہیں تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے۔ ان میں سے ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر جگہ جگہ ابھر آئے ہیں۔اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن(Isostasy)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک نشانی ہے کہ انسان اس پر اپنے ليے راستے بنا سکتا ہے، کہیں ہموار میدان کی صورت میں، کہیں پہاڑی دروں کی صورت میں اور کہیں دریائی شگاف کی صورت میں۔

آسمان کی ’’چھت‘‘ جو ہماری بالائی فضا ہے، اس کی ترکیب اس طرح سے ہے کہ وہ ہم کو سورج کے نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔ وہ شہاب ثاقب کی مسلسل بارش کو ہم تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ اسی طرح سورج اور چاند کا ٹکرائے بغیر ایک خاص دائرہ میں گھومنا اور اس کی وجہ سے زمین پر دن اور رات کا باقاعدگی کے ساتھ پیدا ہونا۔

اس قسم کی بے شمار نشانیاں ہماری دنیا میںہیں۔ آدمی ان کو گہرائی کے ساتھ دیکھے تو وہ خدا کی قدرتوں اور نعمتوں کے احساس میں ڈوب جائے۔ مگر آدمی ان کو نظر انداز کردیتاہے۔ وہ کھلے کھلے واقعات کو دیکھ کر بھی اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔