You are reading a tafsir for the group of verses 21:32 to 21:33
وَجَعَلْنَا
السَّمَآءَ
سَقْفًا
مَّحْفُوْظًا ۖۚ
وَّهُمْ
عَنْ
اٰیٰتِهَا
مُعْرِضُوْنَ
۟
وَهُوَ
الَّذِیْ
خَلَقَ
الَّیْلَ
وَالنَّهَارَ
وَالشَّمْسَ
وَالْقَمَرَ ؕ
كُلٌّ
فِیْ
فَلَكٍ
یَّسْبَحُوْنَ
۟
3

آیت 32 وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًاج وَّہُمْ عَنْ اٰیٰتِہَا مُعْرِضُوْنَ ”اس سے پہلے یہ مضمون سورة الحجر میں اس طرح بیان ہوا ہے : وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا للنّٰظِرِیْنَ۔ وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ ”اور ہم نے آسمان میں برج بنائے ہیں اور اسے مزین کردیا ہے دیکھنے والوں کے لیے اور ہم نے حفاظت کی ہے اس کی ہر شیطان مردود سے“۔ یعنی آسمان دنیا پر جو ستارے ہیں وہ باعث زینت بھی ہیں ‘ لیکن دوسری طرف یہ شیاطین جن کے لیے میزائل سنٹر بھی ہیں۔ ان میں سے جو کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کر کے غیب کی خبروں کی ٹوہ میں عالم بالا کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے اس پر شہاب ثاقب کی شکل میں میزائل داغا جاتا ہے اور یوں ان شیاطین کی پہنچ کے حوالے سے آسمان کو سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کا درجہ دے دیا گیا ہے۔اب تک کی سائنسی تحقیقات کے حوالے سے سَقْفًا مَّحْفُوْظًا کے دو پہلو اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک تو O-Zone Layer کی فراہم کردہ حفاظتی چھتری ہے جس نے پورے کرۂ ارض کو ڈھانپ رکھا ہے اور یوں سورج سے نکلنے والی تمام مضر شعاعوں کو زمین تک آنے سے روکنے کے لیے یہ فلٹر کا کام کرتی ہے ماحولیاتی سائنس کے ماہرین آج کل اس کے بارے میں بہت فکر مند ہیں کہ مختلف انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اسے نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ بتدریج کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری فضا زمین کے اوپر کرۂ ہوائی بھی حفاظتی چھت کا کام دیتی ہے۔ خلا میں تیرنے والے چھوٹی بڑی جسامتوں کے بیشمار پتھر یہ پتھر یا پتھر نما ٹھوس اجسام مختلف ستاروں یا سیاروں میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ہر وقت خلا میں بکھرے رہتے ہیں جب کرۂ ہوائی میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی تیز رفتاری کے سبب ہوا کی رگڑ سے جل کر فضا میں ہی تحلیل ہوجاتے ہیں اور یوں زمین ان کے نقصانات سے محفوظ رہتی ہے۔