You are reading a tafsir for the group of verses 21:30 to 21:31
اَوَلَمْ
یَرَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْۤا
اَنَّ
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضَ
كَانَتَا
رَتْقًا
فَفَتَقْنٰهُمَا ؕ
وَجَعَلْنَا
مِنَ
الْمَآءِ
كُلَّ
شَیْءٍ
حَیٍّ ؕ
اَفَلَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
وَجَعَلْنَا
فِی
الْاَرْضِ
رَوَاسِیَ
اَنْ
تَمِیْدَ
بِهِمْ ۪
وَجَعَلْنَا
فِیْهَا
فِجَاجًا
سُبُلًا
لَّعَلَّهُمْ
یَهْتَدُوْنَ
۟
3

اولم یرالذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل فی فلک یسبحون ”

یہ اس نظر آنے والی کائنات کی سیر ہے ‘ جبکہ انسانوں کے دل و دماغ اس میں موجود دلائل و شواہد سے بالکل غافل ہیں۔ اگر کھلے دل و دماغ سے اس پر غور کیا جائے تو اس میں ایسے شواہد ہیں جو عقل و خرو کے دامن گیر ہوجاتے ہیں ‘ صرف چشم بینا چاہیے۔

یہ بات کہ زمین و آسمان پہلے ملے ہوئے تھے اور ہم نے ان کو بعد میں جدا کردیا ‘ قابل غور ہے۔ فلکیات کے شعبے میں انسانی علم جس قدر آگے بڑھتا ہے وہ قرآن کے اس فرمان کی توثیق کرتا ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہی۔ آج تک انسانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج کی کہکشاں جس میں سورج ‘ چاند ‘ زمین اور ان کے تابع دوسرے سیارے ہیں وہ پہلے ایک “ سدیم “ تھے بعد میں جدا ہو کر ان اجرام نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔ اور یہ کہ زمین سروج ہی کا ایک حصہ تھی جس سے وہ جدا ہوئی اور ٹھنڈی ہوگئی۔

لیکن یہ تو فلکی نظریات میں سے ایک نظریہ ہے۔ آج یہ قائم ہے ‘ کل پھر اڑ جائے گا اور اس کی جگہ ایک دوسرا زیادہ مضبوط نظریہ لے لے گا۔ مسلمانوں کا طریقہ کار یہ نہیں ہے کہ وہ یقینی آیت پر ماہرین فلکیات کا کوئی غیر یقینی نظر یہ تھوپ دیں اور پھر اس کی تفسیر اس کے مطابق کریں۔ آج ہم اسے قبول کریں اور کل مسترد کردیں۔ اس لیے قرآن مجید کی اس تفسیر میں ہم نے یہ طریقہ اختیار نہیں کیا کہ ہم قرآن کریم اور جدید سائنسی نظریات کے درمیان تطبیق کریں۔ لیکن سائنسی نظریات اور چیز ہیں اور سائنسی حقائق اور چیز۔ سائنسی حقائق وہ ہوتے ہیں جو تجربے سے ثابت ہوں مثلا۔ یہ سائنسی حقیقت ہے کہ مادہ گرمی سے بڑھ جاتا ہے اور پانی گرم ہونے سے بخارات میں بدل جاتا ہے اور برودت سے پانی جم جاتا ہے۔ اس طرح کے دوسرے تجربات دراصل سائنسی حقائق ہوتے ہیں۔ یہ سائنسی حقائق علمی اور فلکی نظریات سے مختلف چیز ہے۔

قرآن کریم علمی نظریات کی کتاب نہیں ہے۔ نہ قرآن کریم اس لیے نازل ہوا ہے کہ سائنس کی طرح اس کے تجربے کیے جائیں۔ دراصل قرآن زندگی کا ایک پورا نظام ہے ‘ نیز اسلام عقل کے لیے بھی حدود متعین کرتا ہے تاکہ وہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے۔ اسلام معاشرے کے لیے بھی ایک ضابطہ مقرر کرتا ہے تاکہ وہ عقل کو کام کرنے کی آزادی دے۔ لیکن اسلام سائنسی جزئیات میں مداخلت نہیں کرتا۔ نہ جزئیات میں جاتا ہے۔ عقل کی سمت درست کرکے اسلام ان باتوں کو عقل پر چھوڑ دیتا ہے۔

قرآن کریم کبھی کبھار کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے مثلا ان السموات والارض کانتا رتقا ۔۔۔ (12 : 03) ” آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو جدا کیا “۔ ہم اس حقیقت پر محض اس لیے یقین کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں مذکور ہے ‘ اگرچہ تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ کیونکر ہوا ؟ زمین آسمان سے کیسے جدا ہوئی یا آسمان زمین سے کیسے جدا ہوئے۔ ہم ان سائنسی نظریات کو بھی اس مجھمل حد تک قبول کرتے ہیں جو حقیقت مذکورہ در قرآن کے خلاف نہ ہوں۔ لیکن ہم یہ نہیں کرتے کہ فلکیاتی نظریات کو سامنے رکھ کر آیات قرآنیہ کو ان کے پیچھے دوڑائیں اور قرآن کی صداقت کا سرٹیفکیٹ ان نظریات سے لیں کیونکہ یقینی حقیقت قرآن ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکت ہیں کہ آج کے فلیکاتی نظریات اس آیت کے اس مجمل مضمون کے خلاف نہیں ہیں جو آیت میں آج سے صدیوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔

اب ہم اس آیت کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے۔

وجعلنا من المآء کل شیء حی (12 : 03) ” اور ہم نے پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی “۔ یہ آیت بھی نہایت ہی اہم حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ سائنس دان اس کے انکشاف اور ثبوت کو ایک عظیم با تخیال کرتے ہیں اور ڈارون کی اس بات پر تعریف کرتے ہیں جس نے کہ یہ دریافت کیا کہ پانی حیات کا بنیادی گہوارہ ہے اور اس حقیقت کو تجربے سے ثابت کیا۔

اس میں شک نہیں کہ سائنس دان جب اس حقیقت تک پہنچے تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا لیکن قرآن مجید میں جو بات آئی ہے یہ ہمارے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے اور نہ سائنس دانوں کے انکشاف اور تجربے سے قرآن پر ایک مسلمان کے عقیدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پر ہمارے اعتقاد کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بنیاد نہیں ہے کہ جدید سائنسی نظریات قرآن کریم میں دیئے گئے حقائق کو ثابت کرتے ہیں۔ ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈارون کا نظہ یہ ارتقاء اور نشوونما اس حد تک درست اور ثابت شدہ حقیقت ہے کہ کس حدتک وہ زندگی کے لیے پانی کو ضروری خیال کرتا ہے۔

قرآن کریم نے تو آج سے چودہ سو سال قبل کفار کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ ذرا اس کائنات پر غور کرو ‘ اس کے عجائبات کو دیکھو ‘ قرآن نے تو ان کی جانب سے کائنات کا مشاہدہ نہ کرنے پر سخت تنقید کی تھی اور یہ کہا تھا۔

افلا یو منون (12 : 03) ” کیا یہ لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ حالانکہ ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات یہ پکاررہی ہے کہ اللہ پر ایمان لائو۔

اور ذرا مزید کائناتی مناظر : وجعلنا فی الارض رواسی ان تمید بھم ” اور زمین پر پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے “۔ یہاں جو بات ثابت کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین پر بڑے بڑے پہاڑ جمادیئے تاکہ وہ انسانوں کو لے کر ایک طرف ڈھلک نہ جائے اور اس کے اندر اضطراب نہ ہو۔ توازن مختلف صورتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً بعض اوقات داخلی دبائو جو زمین کے اندر ہوتا ہے ‘ توازن پیدا کرتا ہے اور بعض اوقات خارجی دبائو توازن پیدا کرتا ہے اور یہ دبائو مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے۔ کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک جگہ پہاڑ بلند ہوں ‘ دوسری جگہ زمین میں گہرے کھدے کے ساتھ متوازن ہوتا ہے۔ جو بھی ہو ‘ بہر حال اس آیت سے اجمالاً یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ زمین کے توازن کا پہاڑوں کے ساتھ تعلق ہے اس لیے ہم عقلی علوم اور تجربات کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ قرآن نے ایک حقیقت کے بارے حقیقت ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ آپ اسے ثابت کریں ‘ سائنسی تجربات سے اور یہ ہے عقل انسانی اور سائنسی موضوع کے لیے کام کرنے کا اصل میدان۔ ہمیں قرآن کریم کے اس اعلان پر وجدانی یقین رکھنا چاہیے اور اس کے ثبوت کے لیے اس کائنات میں مزید تحقیقات کرنا چاہئیں۔