اَوَلَمْ
یَرَ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْۤا
اَنَّ
السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضَ
كَانَتَا
رَتْقًا
فَفَتَقْنٰهُمَا ؕ
وَجَعَلْنَا
مِنَ
الْمَآءِ
كُلَّ
شَیْءٍ
حَیٍّ ؕ
اَفَلَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
3

آیت 30 اَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰہُمَا ط ”یعنی شدید گرمی اور حبس کی صورت حال جس میں لوگوں کی جان پر بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان کے دروازے بھی بند ہیں ‘ زمین کے سوتے بھی خشک ہیں ‘ بارش کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ‘ ہر طرف خشک سالی کا راج ہے اور پھر یکا یک اللہ کی رحمت سے یہ صورت حال تبدیل ہوجاتی ہے۔ آسمان کے دہانے کھل جاتے ہیں اور بارش کے پانی سے زمین پر نباتاتی اور حیواناتی زندگی کی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔اس کے علاوہ اس آیت میں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ Big Bang کے بعد مادے کا جو ایک بہت بڑا گولا وجود میں آیا تو وہ ایک یکجا وجود Homogenous mass کی صورت میں تھا۔ پھر مادے کے اس گولے میں تقسیم ہوئی ‘ مختلف ستاروں اور سیاروں کے گچھے بنے ‘ کہکشائیں Galaxies وجود میں آئیں ‘ سورج اور اس کے سیاروں کی تخلیق ہوئی ‘ اور یوں ہماری زمین بھی پیدا ہوئی۔ گویا اس سارے تخلیقی عمل کا اظہار اس ایک فقرے میں ہوگیا کہ آسمان اور زمین بند تھے ‘ یعنی باہم ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں کھول دیا ‘ جدا کردیا۔وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ ط ”یہاں پر خَلَقْنَا کے بجائے جَعَلْنَا فرمایا۔ زمین کے اوپر زندگی جس کسی شکل میں بھی ہے ‘ چاہے وہ نباتاتی حیات ہو یا حیوانی ‘ ہر جاندار چیز کا مادۂ تخلیق مٹی اور مبدأ حیات پانی ہے۔ مٹی تُراب اور پانی مل کر گارا طِین بنا۔ پھر یہ طینٍ لَّازب میں تبدیل ہوا۔ پھر اس نے حماأ مسنون کی شکل اختیار کی۔ اس کے بعد صلصالٍ مّنْ حَمَاأ مسنونکا مرحلہ آیا۔ پھر صلصا لٍ کا لفخّار بنا۔ اس سلسلے میں سورة الحجر ‘ آیت 26 کی تشریح بھی مد نظر رہے۔ گویا مٹی سے ہر جاندار چیز کی تخلیق ہوئی اور ان سب کی زندگی کا دارومدار پانی پر رکھا گیا۔ چناچہ ہر جاندار کے لیے مبدأ حیات پانی ہے۔