You are reading a tafsir for the group of verses 21:1 to 21:3
اِقْتَرَبَ
لِلنَّاسِ
حِسَابُهُمْ
وَهُمْ
فِیْ
غَفْلَةٍ
مُّعْرِضُوْنَ
۟ۚ
مَا
یَاْتِیْهِمْ
مِّنْ
ذِكْرٍ
مِّنْ
رَّبِّهِمْ
مُّحْدَثٍ
اِلَّا
اسْتَمَعُوْهُ
وَهُمْ
یَلْعَبُوْنَ
۟ۙ
لَاهِیَةً
قُلُوْبُهُمْ ؕ
وَاَسَرُّوا
النَّجْوَی ۖۗ
الَّذِیْنَ
ظَلَمُوْا ۖۗ
هَلْ
هٰذَاۤ
اِلَّا
بَشَرٌ
مِّثْلُكُمْ ۚ
اَفَتَاْتُوْنَ
السِّحْرَ
وَاَنْتُمْ
تُبْصِرُوْنَ
۟
3

سورة الانبیآء مکیۃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واھلکنا المسرفین (1 : 9)

یہ نہایت ہی زور دار آغاز ہے ‘ کسی بھی غافل شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے کہ حساب سر پر ہے اور لوگ غفلت اور لاپرواہی میں بیٹھے ہیں۔ بڑی بےتابی سے رسول ان کے سامنے آیات الہیہ پیش کررہے ہیں اور وہ منہ موڑ کر دوسری جانب جارہے ہیں۔ فوراً چوکنا ہونے کی ضورت ہے اور یہ لوگ ہیں کہ خطرے کا شعور بھی نہیں رکھتے بلکہ جب بھی ان کو متنبہ کرنے کی نئی کوشش کی جاتی ہے یہ مذاق کرتے ہیں اور دعوت کو غیر اہم سمجھ کر کھیل میں لگ جاتے ہیں۔

لاھیۃ قلو بھم (12 : 3) ” ان کے دل غافل ہیں “۔ ان کے دل و دماغ اور شعور و وجدان کے تار بالکل خاموش ہیں۔ ان کے اندر کوئی نغمہ نہیں ہے۔ یہ ان شخصیات کی تصویر کشی ہے جو غایت درجہ لاابالی ہیں اور سنجیدگی ان میں مفقود ہے ‘ جو نہایت ہی خطرناک مقامات پر بھی غیر سنجیدہ رہتے ہیں ‘ جو نہایت محتاط رہنے کے مقام پر بھی گپ لگاتے ہیں ‘ نہایت ہی مقدس موقف اور مقدس مقام میں بھی گندگی گراتے ہیں۔ یہ قرآن جو ان کو منایا جارہا ہے ‘ یہ تو رب ذوالجلال کی طرف سے ایک پیغام ہے اور یہ اس سے لاپرواہ ہیں۔ کوئی وقار ‘ کوئی پاکیزگی ان میں نہیں ہے۔ جن لوگوں میں سنجیدگی ‘ وقار ‘ پاکیزگی ‘ جدت نظر نہیں ہوتی وہ آخرکار اس قدر ہلکے ‘ خشک ہوجاتے ہیں اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ کسی اونچے مشن یا اہم فرائض کی ادائیگی اور بھاری بوجھ اٹھانے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ ان کی زندگی ڈھیلی ‘ ان کے اخلاق گرے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کی اقدار ارزاں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں ایک قسم کی بےباکی پیدا ہوجاتی ہے او وہ مقدس سے مقدس قدر کو بھی ہلکا سمجھتے ہیں۔ یہ شتر بےمہار ہوتے ہیں ‘ کس یدستور اور ضابطے کے پابند نہیں ہوتے۔ اور ان کو خیر و شر کا شعور ہی نہیں رہتا۔

اس قسم کے لوگ اس قرآن مجید کو سنجیدگی سے نہ لیتے تھے حالانکہ یہ قرآن مجید تو دستور حیات ‘ نظام زندگی ‘ نظام عمل ‘ نظام معاملہ تھا۔ اس کو سنجیدگی سے دیکھا چاہیے تھا لیکن ان لوگوں نے اسے نہایت ہی لا بالی پن سے ایک ستر بےمہار شخص کی طرح غفلت سے لیا اور مذاق کرنے لگے ۔ ایسے لوگ ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ جب روح انسان اس طہارت اور اقدا کے اس تقدس کو خیر باد کہہ دے تو پھر معاشرہ مریض انسان پیدا کرتا ہے ‘ ستر بےمہار انسان پیدا کرتا ہے ‘ لا ابالی انسان پیدا کرتا ہے ‘ جن کا نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اور نہ وہ کسی چیز کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان نے اس سورة کو اس سندیگی ‘ اور اس اہمیت سے لیا کہ ان کے دل دنیا ومافیہا سے بےنیاز ہوگئے۔ ترجمہ آمدی میں عامر ابن ربیعہ کا یہ واقعہ آیا ہے کہ ان کے پاس عرب کا ایک آدمی آیا۔ اس نے ان کی بڑی قدر و منزلت کی اور عزت سے ٹھہرایا۔ اس کے بعد وہ شخص دوبارہ عامر کے پاس آیا۔ اس وقت اسے زمین الاٹ ہوچکی تھی اور کہا میں نے رسول اللہ ﷺ سے سرزمین عرب کی ایک پوری وادی بطور جاگیر الاٹ کرالی ہے ‘ میں چاہتا ہوں کہ اس میں سے ایک ٹکڑا تمہیں دے دوں تاکہ وہ تمہیں اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کے کام آئے۔ اس پر عامر نے کہا ‘ مجھے تمہاری اس جاگیر میں کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔ آج ایک سورة نازل ہوئی ہے ‘ اس نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب دنیا میں ہماری کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔

اقترب للناس۔۔۔۔۔۔۔۔ معرضون (12 : 1) ” قریب آگیا ہے ‘ لوگوں کے حساب کا وقت اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں “۔

یہ ہے فرق دلوں میں۔ ایک طرف ہیں زندہ ‘ قبول کنندہ اور اثر گثرندہ دل اور دوسری جانب ہیں مردہ ‘ بجھے ہوئے اور ایسے دل جن میں فکر و شعور کے داخلے کی تمام کھڑکیاں بند ہیں۔ ان مردہ دلوں پر لہو و لعت کے کفن ہیں اور ان کو بےمہاری کے لا ابالی پن کے قبرستان میں دفنا دیا گیا ہے۔ قرآن کا ان پراثر نہیں ہوتا کیونکہ ان کے دل بجھ گئے ہیں اور وہ اس طرح ہوگئے ہیں کہ ان میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے۔

واسروا۔۔۔۔۔ ظلموا (12 : 3) ” اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں “۔ اہل مکہ ہر وقت رسول اللہ ﷺ اور آپ کی تحریک کے بارے میں سرگوشیاں کرتے تھے۔ پھر یہ سرگوشیاں ان کی سازشوں کی شکل اختیار کرتی تھیں اور پھر یوں تبصرے کرتے تھے۔

ھل ھذآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانتم تبصرون (12 : 3) ” یہ شخص آخر تم جیسا بشر ہی تو ہے تو کیا پھر تم آنکھوں دیکھتے (سمجھتے بوجھتے) جادو کے پھندے میں پھنس جائو گے “۔ یہ لوگ تو درحقیقت مرچکے ہیں اور ان کے جسم میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں ہے اس لیے یہ قرآن سے خود تو متاثر ہوتے نہیں تھے لیکن جن دوسرے لوگوں پر قرآن کے اثرات ہوتے تھے ان کو یہ لوگ یوں بدراہ کرتے تھے کہ لوگوں دیکھو ‘ یہ محمد تو ہم جیسا انسان ہے ‘ تو اس پر کیوں ایمان لاتے ہو۔ اس کلام کا تم پر جو اثر ہوتا ہے تو وہ ایک جادو ہے۔ تم دیکھتے ہوئے اور سمجھتے ہوئے اس جادو کا اثر لیتے ہو۔

جب وہ ایسے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے تو رسول اللہ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنا اور ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیں۔ یہ جو مشورے کررہے ہیں اور قرآن کے اثرات سے بچنے کے لیے جو بہانے اور پرو پیگنڈے کرتے ہیں ان کا کوئی اثر نہ ہوگا۔