اَلَمْ
یَاْتِكُمْ
نَبَؤُا
الَّذِیْنَ
مِنْ
قَبْلِكُمْ
قَوْمِ
نُوْحٍ
وَّعَادٍ
وَّثَمُوْدَ ۛؕ۬
وَالَّذِیْنَ
مِنْ
بَعْدِهِمْ ۛؕ
لَا
یَعْلَمُهُمْ
اِلَّا
اللّٰهُ ؕ
جَآءَتْهُمْ
رُسُلُهُمْ
بِالْبَیِّنٰتِ
فَرَدُّوْۤا
اَیْدِیَهُمْ
فِیْۤ
اَفْوَاهِهِمْ
وَقَالُوْۤا
اِنَّا
كَفَرْنَا
بِمَاۤ
اُرْسِلْتُمْ
بِهٖ
وَاِنَّا
لَفِیْ
شَكٍّ
مِّمَّا
تَدْعُوْنَنَاۤ
اِلَیْهِ
مُرِیْبٍ
۟
3

خدا کے جتنے رسول مختلف قوموں میںآئے سب کے ساتھ ایک ہی قصہ پیش آیا۔ ہر قوم نے اپنے پیغمبروں کی مخالفت کی۔ ہر جگہ ان کا منھ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ ان کا ’’شک‘‘ تھا۔ یہ شک اس لیے تھاکہ ان کے سامنے ایک طرف ان کا آبائی دین تھا جس کی پشت پر اکابر اور اعاظم کے نام تھے۔ دوسری طرف پیغمبر کا دین تھا ،جو بظاہر ایک معمولی انسان کے ذریعہ پیش کیا جارہا تھا۔ دلائل کا زور پیغمبر کے دین کے ساتھ نظر آتا تھا مگر تاریخی عظمت اورعوامی بھیڑ آبائی دین کے ساتھ دکھائی دیتی تھی۔ پیغمبر کے مخاطبین کا یہ حال ہوا کہ وہ دلائل کو رد کرنے کی قوت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔ اور یہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اعاظم اوراکابر کو کس طرح غلط سمجھ لیں۔ اس دو طرفہ صورت حال نے انھیں شک میں مبتلا کردیا۔ عملاً اگر چہ وہ آبائی دین کے ساتھ وابستہ رہے مگر اپنے قلب ودماغ کو شک سے آزاد بھی نہ کرسکے۔