You are reading a tafsir for the group of verses 14:5 to 14:6
وَلَقَدْ
اَرْسَلْنَا
مُوْسٰی
بِاٰیٰتِنَاۤ
اَنْ
اَخْرِجْ
قَوْمَكَ
مِنَ
الظُّلُمٰتِ
اِلَی
النُّوْرِ ۙ۬
وَذَكِّرْهُمْ
بِاَیّٰىمِ
اللّٰهِ ؕ
اِنَّ
فِیْ
ذٰلِكَ
لَاٰیٰتٍ
لِّكُلِّ
صَبَّارٍ
شَكُوْرٍ
۟
وَاِذْ
قَالَ
مُوْسٰی
لِقَوْمِهِ
اذْكُرُوْا
نِعْمَةَ
اللّٰهِ
عَلَیْكُمْ
اِذْ
اَنْجٰىكُمْ
مِّنْ
اٰلِ
فِرْعَوْنَ
یَسُوْمُوْنَكُمْ
سُوْٓءَ
الْعَذَابِ
وَیُذَبِّحُوْنَ
اَبْنَآءَكُمْ
وَیَسْتَحْیُوْنَ
نِسَآءَكُمْ ؕ
وَفِیْ
ذٰلِكُمْ
بَلَآءٌ
مِّنْ
رَّبِّكُمْ
عَظِیْمٌ
۟۠
3

آیت 5 وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَآاَنْ اَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَذَكِّرْهُمْ ڏ بِاَيّٰىمِ اللّٰهِ یہ ”التّذکیر بایّام اللّٰہ“ کی وہی اصطلاح ہے جس کا ذکر شاہ ولی اللہ دہلوی کے حوالے سے قبل ازیں بار بار آچکا ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اپنی مشہور کتاب ”الفوز الکبیر“ میں مضامین قرآن کی تقسیم کے سلسلے میں ”التذکیر بایام اللّٰہ“ کی یہ اصطلاح استعمال کی ہے یعنی اللہ کے ان دنوں کے حوالے سے لوگوں کو خبردار کرنا جن دنوں میں اللہ نے بڑے بڑے فیصلے کیے اور ان فیصلوں کے مطابق کئی قوموں کو نیست و نابود کردیا۔ اس کے ساتھ شاہ ولی اللہ نے دوسری اصطلاح ”التذکیر بآلاء اللّٰہ“ کی استعمال کی ہے ‘ یعنی اللہ کی نعمتوں اور اس کی نشانیوں کے حوالے سے تذکیر اور یاد دہانی۔اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ صَبَّار اور شَکُور دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ صبر اور شکر یہ دونوں صفات آپس میں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی complementary نوعیت کی ہیں۔ چناچہ ایک بندۂ مؤمن کو ہر وقت ان میں سے کسی ایک حالت میں ضرور ہونا چاہیے اور اگر وہ ان میں سے ایک حالت سے نکلے تو دوسری حالت میں داخل ہوجائے۔ اگر اللہ نے اس کو نعمتوں اور آسائشوں سے نوازا ہے تو وہ شکر کرنے والا ہو اور اگر کوئی مصیبت یا تنگی اسے پہنچی ہے تو صبر کرنے والا ہو۔حضرت صہیب بن سنان رومی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : عَجَبًا لِاَمْرِ الْمُؤْمِنِ اِنَّ اَمْرَہٗ کُلَّہٗ خَیْرٌ وَلَیْسَ ذَاکَ لِاَحَدٍ الاَّ لِلْمُؤْمِنِ ‘ اِنْ اَصَابَتْہُ سَرَّاءُ شَکَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ وَاِنْ اَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہٗ 1”مؤمن کا معاملہ تو بہت ہی خوب ہے ‘ اس کے لیے ہر حال میں بھلائی ہے ‘ اور یہ بات مؤمن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہے۔ اگر اسے کوئی آسائش پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے ‘ اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے ‘ پس یہ اس کے لیے بہتر ہے۔“