ایمان یہ ہے کہ آدمی خدا کو ایک ایسی ہستی کی حیثیت سے پالے جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اور ساری خوبیوں والا بھی هے۔ ایساواقعہ کسی آدمی کے لیے محض ایک رسمی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی آدمی کا بے علمی کی تاریکی سے نکل کر علم کی روشنی میں آناہے۔ یہ غیب کے پردے سے گزر کر شہود کے جلوے کو دیکھ لینا ہے۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا ادراک کرلینا ہے۔ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک شعوری یافت ہے، نہ کہ کسی مجموعۂ الفاظ کی بے روح تکرار— خداکی کتاب اس لیے آتی ہے کہ آدمی کو اس شعوری درجہ پر پہنچائے۔
اللہ کے اذن سے ہدایت ملنا، بظاہر ہدایت کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ مگر اس ارشاد کا رخ حقیقۃً خودانسان کی طرف ہے۔ ’’اذن‘‘ سے مراد خدا کا وہ مقررہ قانون ہے جو اس نے انسان کی ہدایت وضلالت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق آدمی کی اپنی سنجیدہ طلب واحد شرط ہے جو اس کو ہدایت تک پہنچاتی ہے۔ اس دنیا میں جس شخص کو ہدایت ملتی ہے وہ محض کسی داعی کی داعیانہ کوششوں سے نہیں ملتی بلکہ خدا کے قانون کے تحت ملتی ہے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ ہدایت کی نعمت کو صرف وہ شخص پائے گا جو خود ہدایت کا طالب ہو۔ ذاتی طلب کے بغیر کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
ہدایت کے راستہ کو خدانے انتہائی حد تک صاف اور روشن بنایا ہے۔ زمین وآسمان میںاس کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ خدا کی کتاب اس کے حق میں ناقابلِ انکار دلائل فراہم کرتی ہے۔ انسانی فطرت اس کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے۔ گویا تمام بہترین قرائن اس کے حق میں جمع ہیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ ہدایت کے راستہ کو اختیارنه کریں وہ یقینی طور پر دنیوی مفادکی بنا پر ایسا کررہے ہیں، نہ کہ کسی واقعی سبب کی بنا پر۔ اگر چہ ایسے لوگ اپنی روش کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ ’’دلائل‘‘ بھی پیش کرتے ہیں مگر یہ دلائل صرف سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں اپنے نہ ماننے کا جواز فراہم کریں۔
ایسی حالت میں ہدایت سے محروم صرف وہی شخص رہ سکتا ہے جس کی مفاد پرستی اور دنیوی رغبت نے اس کو بالکل اندھا بہرا بنادیاهو۔