پیغمبروں کی دعوت سے ان کی قوموں کے دین پر زد پڑتی تھی۔ وہ لوگ اپنے جن افراد کو قوم کے اکابر کادرجہ ديے ہوئے تھے، پیغمبروں کے تجزیہ میں وہ اصاغر قرار پارہے تھے۔ اس بنا پر وہ پیغمبروں سے بگڑ گئے۔ وہ دلائل سے تو ان کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ البتہ وقت کے نظام میں ان کو ہر قسم کا اختیار حاصل تھا۔ چنانچہ ان کی متکبرانہ نفسیات نے انھیں سمجھایا کہ پیغمبر کو بے گھر اور بے زمین کردیا جائے۔ جس چیز کا توڑان کے پاس دلیل کی زبان میں نہ تھا، ا س کا توڑ انھوں نے طاقت کے ذریعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
جو زمین آدمی کے پاس ہے، وہ اس کے پاس بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور حق۔ اگر آدمی یہ سمجھے کہ یہ خدا کی چیز ہے جس کو اس نے امتحان کی غرض سے اس کی تحویل میں دیا ہے تو اس سے آدمی کے اندر تواضع کی نفسیا ت پیداہوگی۔ وہ ڈرے گا کہ جس خدا نے دیاہے وہ اس کو دوبارہ اس سے چھین نہ لے۔ مگر غافل لوگ اس کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا یہی احساس ان کو ظالم اور متکبر بنا دیتاہے۔
پیغمبر کی دعوت جب تکمیل کے مرحلہ پر پہنچتی ہے تو یہ مخاطب قوم کے لیے مہلت امتحان ختم ہونے کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ دنیاکو اپنے لیے بالکل بدلا ہوا پاتے ہیں۔ جن چیزوں کو وہ اپنی چیز سمجھ کر متکبرانہ منصوبے بنا رہے تھے وہ چیزیں اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ زمین ان سے چھین کر دوسرے لوگوں کو دے دی جائے جو ان کے مقابلہ میں اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہوں۔