آیت نمبر 12
وما لنا۔۔۔۔۔۔۔ ھدنا سبلنا (14 : 12) ” اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ “ یہ اس شخص کی بات ہے جسے اپنے موقف اور اپنے طریقہ کار پر پختہ یقین ہو اور وہ اپنے منہاج پر مطمئن ہو۔ اس کا دامن اپنے حقیقی ولی اور ناصر کے اعتماد سے بھرا ہوا ہو ، اور وہ یقین رکھتا کہ جو ذات ہدایت دیتی ہے وہ اس کی معین و مددگار ہوگی۔ اگر ایک راہ رو صحیح راہ پر جا رہا ہو تو اسے کیا پرواہ ہے کہ وہ منزل تک پہنچتا ہے یا نہیں۔ اصل فکر تو اس بات کی ہونا چاہئے کہ راہ رو جس راہ پر سفر کر رہا ہے وہ راہ دعوت ہے یا نہیں۔
جو شخص یہ محسوس کرتا ہے کہ دست قدرت اس کی رہنمائی کر رہا ہے اور اپنے قدم بقدم چلا رہا ہے ، تو وہ ایک ایسا شخص ہے جس کا شعور اللہ کے وجود اور اس کی قدرت قاہرہ کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسے شخص کا دل اللہ تک پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ جس شخص کو یہ شعور حاصل ہو وہ اپنی راہ پر چلنے میں پھر کوئی تردد نہیں کرتا اگرچہ راستے میں مشکلات ہوں ، اور اگرچہ راستے میں بڑی سے بڑی طاغوتی قوتیں بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں انبیاء (علیہم السلام) کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ یہ یقین رکھیں کہ اللہ ان کا ہادی و ناصر ہے اور وہ طاغوتی قوتوں کو خاطر نہیں نہ لا کر اپنی راہ پر بےدھڑک چلیں۔ اور اللہ پر بھروسہ کریں اور طاغوتی قوتوں کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لا آگے ہی بڑھیں۔
اس عظیم حقیقت تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو کسی موجود اور مستحکم مقتدر اعلیٰ طاغوتی نظام کے خلاف عملاً اسلامی تحریک کو لے کر اٹھتے ہیں۔ صرف ایسے عملی لوگوں کے دل میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ خود ان کی راہنمائی کر رہا ہے۔ وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں اور ان کے دل ایمان ویقین سے بھر جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے دل محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لئے روشنی کی کھڑکیاں کھل گئی ہیں اور ان کھڑکیوں اور روشن دانوں سے ان پر روشنی آتی ہے ، جو ایمان کی روشنی ہوتی ہے۔ اس رابطے کے ذریعہ ایمان کی تازہ ہوا کے جھونکے بھی آتے رہتے ہیں اور ایسے دل اللہ کے ساتھ نہایت انس اور قرب محسوس کرتے ہیں۔ تحریک اسلامی کے جن کارکنوں کے دلوں میں یہ شعور پیدا ہوتا ہے وہ پھر اس زمین پر پائے جانے والی مقتدر طاغوتی قوتوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کو نہ کوئی دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ کوئی دھمکا سکتا ہے۔ ایسے کارکن پھر ایسی طاغوتی قوت کی قوت اور اقتدار کو نہایت ہی حقارت سے دیکھتے ہیں اس لیے کہ ان کے قلوب اللہ تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور ان حقیر لوگوں کی سازشوں اور مظالم کو پھر وہ خاطر ہی میں نہیں لاتے۔
وما لنا الا۔۔۔۔۔۔۔۔ ما اذیتمونا ” اور ہم کیوں اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ “ اور جو اذیتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو ان پر ہم صبر کریں گے “۔ ہم صبر سے کام لیں گے اور انشاء اللہ ہمارے پاؤں ہرگز نہ ڈگمگائیں گے ، ہم کمزوری نہ دکھائیں گے اور ہمارے قدم متزلزل نہ ہوں گے اور وھن ہمارے قریب نہ آئے گا اور نہ ہم الٹے پاؤں پھریں گے۔ ہم اس راہ سے ہرگز ادھر ادھر نہ ہوں گے ۔ نہ جدو جہد میں کمی کریں گے اور نہ ہی ہم شک میں گرفتار ہوں گے۔ اور یہ اس لیے کہ :
وعلی اللہ فلیتوکل المتوکلون (14 : 12) ” اور بھروسہ کرنے والے ، اللہ ہی پر بھروسہ کرتے ہیں “۔ اب سرکش طاغوتی قوتیں کھل کر سامنے آجاتی ہیں ، یہ قوتیں ، مجادلہ اور مباحثہ ترک کردیتی ہیں ، غوروفکر چھوڑ دیتی ہیں کیونکہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ یہ لوگ لوہے کے چنے ہیں۔ ان کو نہیں چبایا جاسکتا۔ نظریات کے مقابلے میں ان قوتوں کو شکست ہوجاتی ہے ۔ اب یہ لوگ تشدد کے اوچھے ہتھیار لے کر سامنے آتے ہیں کیونکہ طاغوتی سرکش قوتوں کے پاس اس کے سوا ہوتا گیا ہے۔