پیغمبروں کے مخاطبین نے جب اپنے ہم عصرپیغمبروں کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ’’تم تو ہمارے جیسے ایک بشر ہو‘‘ تو اس کی وجہ حقیقۃً یہ نہیں تھی کہ وہ پیغمبری کے لیے غیر بشر ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ دراصل وہ فرق تھا جو ان کے اپنے تصور کے مطابق ان کو پچھلے پیغمبر اور ہم عصر پیغمبر میں نظر آتا تھا۔
گزرا ہوا پیغمبر بھی اگر چہ اپنے وقت میں ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم عصرپیغمبر۔ مگر بعد کے دور میں گزرے ہوئے پیغمبروں کے متبعین نے ان کے گرد طلسماتی قصوں کا ہالہ بنا دیا۔ بعد کے دور میں پیغمبروں کی شخصیتوں کو ایسا افسانوی رنگ دے دیاگیا جو ابتداء ً ان کے یہاں موجود نہ تھا۔ اب قوموں کے سامنے ایک طرف فرضی شعبدوں والا پیغمبر تھا، دوسری طرف حقیقی واقعات والا پیغمبر۔ اس تقابل میں پچھلا پیغمبر پیغمبری کے لیے معیاری نمونہ بن گیا۔ اور جب قوموں نے اس معیار کے اعتبار سے دیکھا تو وقت کا حقیقی پیغمبر ان کو ماضی کے افسانوی پیغمبر سے کم نظر آیا۔ چنانچہ انھوںنے اس کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیا۔
پیغمبروں نے اپنے مخاطبین سے کہا کہ تمھاری ان باتوں کے جواب میں ہمارے پاس صبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ تم غیر بشریت کی سطح پر ہدایت کے طالب ہو۔ اور خدا نے ہم کو صرف بشریت کی سطح پر ہدایت دینے کی طاقت عطا کی ہے۔ ایسی حالت میں ہم اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ تمھاری ایذاؤں کو برداشت کریں اور اس سارے معاملہ کو خدا کے حوالے کردیں۔