اس آیت کا تعلق اصلاً قدیم قوموں سے ہے۔ مگر قرآن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خدا کی ابدی تعلیمات کو تاریخ کے سانچہ میں ڈھال کر پیش کیاگیا ہے۔ اس لیے قرآن میںایسے الفاظ استعمال كيے جاتے ہیں جن میں مخاطبِ اول کی رعایت کے ساتھ بعد کے انسانوں کی رعایت بھی پوری طرح شامل ہو۔
اس آیت میں ’’فاطر‘‘ کا لفظ اسی کی ایک مثال ہے۔ فاطرکے لفظی معنی ہیں ’’پھاڑنے والا‘‘۔ عمومی مفہوم کے لحاظ سے فاطر کا لفظ یہاں خالق کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مگراس کا خالص لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ ہوگا— ’’کیا تم کو خدا کے بارہ میں شک ہے جو زمین و آسمان کا پھاڑنے والا ہے‘‘۔
لفظی ترجمہ کے اعتبار سے یہ آیت موجودہ زمانہ میں منکرین خدا کے لیے خدا کے وجود کو ثابت کررہی ہے۔ جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین وآسمان کا مادہ ابتداء ً ایک سالم گولے کی صورت میں تھا۔ جس کو سپر ایٹم کہاجاتاہے۔ معلوم قوانینِ فطرت کے مطابق اس کے تمام اجزاء انتہائی شدت کے ساتھ اندر کی طرف جڑے ہوئے تھے۔ موجودہ وسیع کائنات اسی سپر ایٹم میں انفجار سے وجود میںآئی۔ اس آیت میں فاطر (پھاڑنے والا) کا لفظ اسی کائناتی واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے جو ایک خالق کے وجود کا قطعی ثبوت ہے۔ کیوں کہ سپر ايٹم کے اجزاء جو مکمل طورپر اندر کی طرف کھنچے ہوئے تھے، ان کو بیرونی سمت میں متحرک کرنا اپنے آپ نہیں ہوسکتا۔ لازم ہے کہ اس کے لیے کسی خارجی مداخلت کو مانا جائے۔ اسی مداخلت کرنے والی طاقت کا دوسرا نام خدا ہے۔