وَیَقُوْلُ
الَّذِیْنَ
كَفَرُوْا
لَوْلَاۤ
اُنْزِلَ
عَلَیْهِ
اٰیَةٌ
مِّنْ
رَّبِّهٖ ؕ
اِنَّمَاۤ
اَنْتَ
مُنْذِرٌ
وَّلِكُلِّ
قَوْمٍ
هَادٍ
۟۠
3

آج ساری دنیا میں ایک ارب سے بھی زیادہ انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول مانتے ہیں۔ مگر آپ کی زندگی میں مکہ والوں کی سمجھ میں نہ آسکا کہ آپ کو خدا نے اپنا رسول بنایاہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اپنی تاریخ کے ابتدائی دو رمیں آپ کی نبوت ایک نزاعي(controversial)نبوت تھي۔ مگر اب اپني تاريخ كے انتهائي دور ميں آپ كي نبوت ايك ثابت شدہ (established) نبوت بن چکی ہے۔ نزاعی دور میں پیغمبر کو پہچاننا جتنا مشکل ہے، اثباتی دور میں اس کو پہچاننا اتنا ہی آسان ہوجاتاہے۔

مکہ کے لوگوں کے پاس جو پیمانہ تھا وہ دولت، اقتدار، اور مقبولیتِ عوام کا پیمانہ تھا۔ اس اعتبار سے آپ ان کو غیر معمولی نظر نہ آتے تھے۔ اس لیے انھوںنے چاہا کہ آپ کے ساتھ کوئی غیر معمولی نشانی ہو جو ان کے لیے آپ کے پیغمبر ہونے کا قطعی ثبوت بن جائے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ یہ لوگ ایسی چیز مانگ رہے ہیں جو خدائی منصوبہ کے مطابق نہیں، اس لیے وہ کسی کو ملنے والی بھی نہیں۔

موجودہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں ہدایت ایسی صریح نشانیوں کے ساتھ نہیں آسکتی کہ اس کے بعد آدمی کے لیے شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔ کیوں کہ ایسی حالت میں امتحان کی مصلحت فوت ہوجاتی ہے۔ یہاں بہر حال یہی ہوگا کہ آدمی کو ’’خبر‘‘ کی سطح پر جانچ کر اس کا یقین کرنا پڑے گا۔ جو شخص اس امتحان میں پورا نہ اترے، اس کے حصہ میں ہدایت بھی کبھی نہیں آسکتی۔

خدا ہر قوم میں اس کے اپنے اندر کے ایک آدمی کو کھڑا کرتاہے تاکہ وہ اس کی مانوس زبان میں اس کو خدا کا پیغام دے۔ یہ انتظام قوموں کی آسانی کے لیے تھا۔ مگر اکثر ایسا ہوا کہ قوموں نے اس سے الٹا اثر لے کر خداکے پیغمبروں کا انکار کردیا۔ ان کی نگاہیں پیغام رساں کے معمولی پن پر اٹک کر رہ گئیں، وہ پیغام کے غیر معمولی پن کو نہ دیکھ سکیں۔