رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لوگوں سے کہتے تھے کہ خدا کی ہدایت کو مانو ورنہ تم خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔ اس کے جواب میں انھوںنے کہا ’’خدایا، محمدجو کچھ پیش کررہے ہیں اگر وہ حق ہے تو تو ہمارے اوپر آسمان سے پتھر برسا‘‘۔ یہ دعا بظاہر خدا سے تھی مگر حقیقۃً اس کا رخ رسول کی طرف تھا۔ آپ اس وقت مکہ کے لوگوں کو بالکل بے وزن معلوم ہوتے تھے۔ ان کو یقین نہیںآتا تھا کہ ایسے معمولی آدمی کے انکار پر خدا ہمیں سزا دے گا۔ ’’محمد‘‘ کے انکار پر عذاب آنا ان کو اتنا بعید از وقوع نظر آتا تھاکہ وہ بطور استہزا کہتے تھے کہ تم جس خدائی عذاب کی دھمکی دے رہے ہو، ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے اوپر آجائے۔
فرمایا کہ تمھارے انکارِ حق کے سبب سے تمھارے اوپر خدا کا عذاب تو آنے ہی والا ہے۔ یہ صرف تمھاری بدبختی ہے کہ تم اس کو جلد بلانا چاہتے ہو۔ حالاں کہ تم کو چاہیے تھا کہ اس وقفہ کو دعوتِ قرآن پر غور وفکر اوراس کی قبولیت میںاستعمال کرو نہ کہ عذاب کو قبل از وقت بلانے میں۔
لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں پھر اس کو مانیں۔ مگر یہ صرف اندھے پن کا مطالبہ ہے۔ اگر ان کے پاس آنکھیں ہوں تو جو کچھ دوسروں کے ساتھ پیش آیا وہی ان کے سبق کے لیے کافی ہے۔ ان سے پہلے کتنی قومیں گذر چکی ہیں جنھوںنے انھیں کی طرح اپنے زمانے کے پیغمبروں کو جھٹلایا اور بالآخر انھیں اس کی سزا بھگتنی پڑی۔
خداکا قانون یہ ہے کہ وہ انسان کو عمل کی مہلت دیتاہے۔ یہی قانون مہلت ہے جس نے لوگوں کو سرکش بنا رکھا ہے۔ مگر مہلت کی ایک حد ہے۔ اس حد کے بعد جو چیز ان کا انتظار کررہی ہے وہ صرف دردناک عذاب ہے جس سے وہ اپنے آپ کو بچا نہ سکیں گے۔