دوسری زندگی کے منکرین کا کیس نہایت عجیب ہے۔ وہ جس واقعہ کے ظہور کو ایک بار مان رہے ہیں اسی واقعہ کے دوبارہ ظہور کا انکار کردیتے ہیں۔
جو لوگ دوسری زندگی کے وقوع کو نہیں مانتے وہ دوسری زندگی کا عقیدہ رکھنے والوں پر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہوتاہے کہ دوسری زندگی کو ماننا ایک غیر علمی بات کو ماننا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیوںکہ کوئی منکر جس چیز کا انکار کرسکتاہے، وہ صرف دوسری زندگی ہے۔ جہاں تک پہلی زندگی کا تعلق ہے اس کاانکار کرنا کسی شخص کے لیے ممکن نہیں۔ کیونکہ وہ تو ایک زندہ واقعہ کے طورپر ہر آدمی کے سامنے موجود ہے۔ پھر جب پہلی زندگی کا وجود میں آنا ممکن ہے تو دوسری زندگی کا وجود میںآنا ناممکن کیوں ہو۔
ایسے لوگ ہمیشہ بہت کم پائے گئے ہیں جو خدا کے منکرہوں۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک خالق کو مانتے ہیں مگر وہ آخرت کو نہیں مانتے۔ مگر آخرت کے انکار کے بعد خالق کے اقرار کی کوئی قیمت باقی نہیں رہتی۔ خدا اس کائنات کا خالق ہی نہیں وہ بذاتِ خود حق بھی ہے۔ خدا کا سراپا حق اور عدل ہونا لازمی طور پر تقاضا کرتاہے کہ وہ جو کچھ کرے حق اور عدل کے مطابق کرے۔ آخرت دراصل خدا کی صفت عدل کا ظہور ہے۔ خداکا ماننا وہی ماننا ہے جب کہ اس کے ساتھ آخرت کو بھی مانا جائے۔ آخرت کو مانے بغیر خدا کا عقیدہ مکمل نہیںہوتا۔
جو لوگ حق کے سیدھے اور سچے پیغام کو نہیں مانتے اس کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ جمود اور تعصب اور اَنانیت کے شکار ہوتے ہیں۔ان سے بات کیجيے تو ایسا معلوم ہوگا کہ وہ خود اپنے خیالات کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔ اس سے نکل کر وہ آزادانہ طورپر کسی خارجی حقیقت پر غور نہیں کرسکتے۔ اسی حالت کو ’’گردن میں طوق پڑنا‘‘ فرمایا۔ کیوں کہ گردن میں طوق ہونا غلامی کی علامت ہے۔ گویا کہ یہ لوگ خود اپنے خیالات کے غلام ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنے آپ کو دنیا میں قیدی بنالیں، آخرت میں بھی ان کے حصے میں قید ہی آئے گی۔