وَفِی
الْاَرْضِ
قِطَعٌ
مُّتَجٰوِرٰتٌ
وَّجَنّٰتٌ
مِّنْ
اَعْنَابٍ
وَّزَرْعٌ
وَّنَخِیْلٌ
صِنْوَانٌ
وَّغَیْرُ
صِنْوَانٍ
یُّسْقٰی
بِمَآءٍ
وَّاحِدٍ ۫
وَنُفَضِّلُ
بَعْضَهَا
عَلٰی
بَعْضٍ
فِی
الْاُكُلِ ؕ
اِنَّ
فِیْ
ذٰلِكَ
لَاٰیٰتٍ
لِّقَوْمٍ
یَّعْقِلُوْنَ
۟
3

حضرت عبد اللہ بن عباس ؓنے فرمایا کہ کوئی اچھی زمین ہے اور کوئی بنجر زمین۔ ایک اگتی ہے اور اسی کے پاس دوسری نہیں اگتی (أَرْضٌ طَيِّبَةٌ وَأَرْضٌ سَبِخَةٌ، نَبَتَتْ هَذِهِ، وَهَذِهِ إِلَى جَنْبِهَا لَا تَنْبُتُ) البحر المحيط لأبی حيان الأندلسی، جلد6، صفحہ 348 ۔مجاہد نے کہا کہ یہی معاملہ بنی آدم کا ہے۔ ان میں اچھے بھی ہیں اور برے بھی، حالانکہ سب کی اصل ایک ہے (كَمَثَلِ بَنِيَ آدَمَ صَالِحِهِمْ وَخَبِيثِهِمْ وَأَبُوهُمْ وَاحِدٌ) حسن بصری نے کہاکہ یہ ایک مثال ہے جو اللہ نے بنی آدم کے دلوں کے لیے دی ہے (هَذَا مَثَلٌ ضَرَبَهُ اللَّهُ تَعَالَى لِقُلُوبِ بَنِي آدَم) تفسیر البغوی، جلد3، صفحہ7۔

زمین میں ایک عجیب نشانی یہ ہے کہ ایک ہی مٹی ہے۔ ایک ہی پانی سے اس کو سیراب کیا جاتا ہے مگر ایک جگہ سے ایک درخت نکلتا ہے اور اسی کے پاس دوسری جگہ سے دوسرا درخت۔ ایک میں میٹھا پھل ہے اور دوسرے میں کھٹا پھل۔ کوئی زیادہ پیداوار دیتاہے اور کوئی کم پیدوار۔

یہ انسانی واقعہ کی زمینی تمثیل ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر چہ تمام انسان بظاہر یکساں ہیں اور ان سب کے پاس ایک ہی ہدایت آتی ہے۔ مگر ہدایت سے استفادہ کے معاملہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان میں بہت زیادہ فرق ہوجاتا ہے۔ کوئی اس سے رہنمائی حاصل کرتاہے اور کوئی اس کا منکر بن جاتاہے۔ کوئی تھوڑی ہدایت لیتاہے اورکسی کی زندگی ہدایت سے مالا مال ہوجاتی ہے۔ گویا جیسی زمین ویسی پیداوار کااصول یہاں بھی ہے اور وہاں بھی۔