یہ تھی ایک اچٹتی سی نظر آفاق کائنات پر۔ اس پر تبصرے تھے ، اب کائنات کی بعض مخصوص وادیوں میں آپ کو لے جایا جائے گا۔ مثلاً نفس انسانی ، انسانی شعور و ادراک اور اس کرۂ ارض پر حیات انسانی اور دوسری زندہ اشیاء پر غور۔
آیت نمبر 8 تا 11
جب حیات انسانی کی تصویر کشی کرتے ہوئے یہ مناظر پیش کیے جاتے ہیں تو انسانی حس اور شعور ششدرزہ جاتا ہے۔ خصوصاً قرآن کے اس ترنم آمیز انداز بیان پر۔ اللہ کے علم اور اللہ کی حکمتوں کی کرشمہ سازیاں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ وہ علوم جو جنین کے بارے میں انسان پر ظاہر ہوچکے ہیں ، پھر وہ راز جو ہر انسان نے اپنے سینے میں چھپا رکھے ہیں ، راتوں میں انسان کی حرکات اور دوڑ دھوپ ، چھپ کر لوگوں کی سرگرمیاں اور دن کے وقت برملا لوگوں کی جدو جہد ، ان تمام امور کو اللہ اچھی طرح جانتا ہے ، اللہ کے گماشتے ان تمام سرگرمیوں کو ریکارڈ بھی کر رہے ہیں۔ انسان کی یہ حیرانی دراصل خوف الٰہی کی وجہ سے ہے جس کے نتیجے میں انسان اللہ کی پناہ لیتا ہے۔ وہ اللہ کی پناہ گاہ ہی میں پناہ لیتا ہے۔ ایک مومن اچھی طرح جانتا ہے اور یقین کرتا ہے کہ اللہ کا علم تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے ، لیکن اصولی طور پر اللہ کے علم کے شمول اور وسعت کا اقرار اور بات ہے اور یہاں قرآن مجید نے جس موثر انداز میں بعض جزئیات کا ذکر کیا ہے اس کی اثر انگیزی اور بات ہے۔
محض تجریدی کلیہ کا بیان کردینا اور بات ہے اور کلیہ کے تحت کسی مثالی جزئیہ کا مطالعہ اور بات ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ بعض جزئیات ، حساس جزئیات کا ذکر فرماتے ہیں۔
اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (13 : 8) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔
ہر حاملہ سے خیال کے پردے پر ہر حاملہ ، مطلق حاملہ آجاتی ہے ، اس پوری کائنات میں تمام زندہ حاملہ ، وسیع معنوں میں ہر حاملہ شہروں میں اور دیہاتوں میں۔ آبادیوں میں اور پہاڑوں میں ، جنگلوں میں دریاؤں میں ، گھروں میں اور غاروں میں ، ہر مادہ کے پیٹ میں جو کچھ پیدا ہو رہا ہے ، بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، ہر وہ قطرۂ خون جو بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے ، اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
یہ تو ہے ایک مخصوص مثال اور یہ کوئی تجریدی کلیہ نہیں ہے کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور بس ، بلکہ ایک مخصوص شعبہ علم کی بات ہے۔
سواء منکم ۔۔۔۔ امر اللہ۔ (13 : 10- 11) ” تم میں سے کوئی شخص خواہ زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا ہو یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں۔ ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کیے ہوئے نگراں لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔
جب انسانی خیال پر سرگوشی کرنے والے ، ہر جہراً بات کرنے والے کے بارے میں سوچ ، اندھیروں میں چلنے والوں اور دن کی روشنی میں متحرک لوگوں کے بارے میں سوچ اور پھر اس پوری کائنات کے بارے میں سوچ اور پھر یہ سوچ کہ اللہ کا علم ان سب کا پیچھا کر رہا ہے اور اس کے گماشتے بھی لکھ رہے ہیں اور رات کے دونوں کناروں پر رپورٹ بھی بھیجتے ہیں۔ پھر ان جزئیات علم الٰہی کے انداز بیان پر بھی ذرا غور کیجئے :
اللہ یعلم ما تحمل۔۔۔۔۔ بمقدار (13 : 8) ” اللہ ایک ایک حاملہ کے پیٹ سے واقف ہے ، جو کچھ اس میں بنتا ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اس میں کمی یا بیشی ہوتی ہے اس سے بھی وہ باخبر رہتا ہے۔ ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک مقدار مقرر ہے “۔ جب اللہ نے یہ فرمایا کہ رحم مادر میں جو کمی بیشی ہوتی ہے اللہ اسے جانتا ہے تو اس کے آخر میں فرمایا کہ اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے۔ نقص و زیادتی کے ساتھ مقدار کا لفظ لانا ایک توازن پیدا کرتا ہے۔ پھر اس کا تعلق اس سے قبل کی اس آیت سے بھی ہے جس میں آیا ہے کہ لوگ اس بات پر تعجب کرتے ہیں کہ مرنے اور مٹی بن جانے کے بعد خلق جدید کی شکل میں لوگ کس طرح اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نیز موضوع اور ظاہری شکل کے اعتبار سے یہ اس مضمون کے بھی مماثل ہے جس میں بارش کا ذکر ہے کہ بارش برستی ہے اور برادری اپنی مقدار کے مطابق پانی سے بہہ جاتی ہے۔ تمام امور میں مقدار ملحوظ ہے۔ کمی بیشی اور مقدار اس سورة کا نکتہ خاص ہے۔
علم الغیب ۔۔۔۔ المتعال (13 : 9) ” وہ پوشیدہ اور ظاہر ہر چیز کا عالم ہے وہ بزرگ اور ہر حال میں بالاتر رہنے والا ہے “۔ لفظ کبیر اور لفظ متعال دونوں پردۂ احساس پر ایک خاص اثر چھوڑتے ہیں ، اس کو میں پر تو سے تعبیر کرتا ہوں۔ کسی دوسرے لفظ سے اس کی تعبیر مشکل ہے۔ یعنی جو بھی مخلوق ہے ، اس کے اندر کوئی نہ کوئی نقص ضرور ہوتا ہے جو اسے صغیر بنا دیتا ہے۔ اللہ کی مخلوقات میں سے کسی کو بھی ہم کبیر نہیں کہہ سکتے۔ یا کسی اور معاملے کو ہم کبیر نہیں کہہ سکتے ہیں۔ اللہ کا ذکر آتے ہی تمام دوسرے امور صغیر ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لفظ متعال کے بارے میں بھی ہماری سوچ محدود ہے۔ کسی مفسر نے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا کہ الکبیر المتعال کا دائرہ اخلاق کیا ہے۔
سواء منکم۔۔۔۔۔ بالنھار (13 : 10) ” تم میں سے کوئی شخص زور سے بات کرے یا آہستہ ، اور کوئی رات کی تاریکی میں چھپا ہوا یا دن کی روشنی میں چل رہا ہو ، اس کے لئے سب یکساں ہیں “۔ عبارت میں تقابل واضح ہے۔ لفظ سارب قابل غور ہے۔ خود لفظ سارب اپنے مفہوم پر روشنی ڈالتا ہے۔ مفہوم ہے اخفا اور پوشیدگی یا قریب قریب پوشیدگی۔ سارب کا مفہوم ہے روشنی میں چلنے والا یعنی خفیہ چیزوں کو بھی اللہ جانتا ہے۔ حمل جو چھپا ہوا ہے ، راز جو خفیہ ہوتے ہیں ، وہ شخص جو رات کے اندھیرے میں چلتا ہے پھر اللہ کے گماشتے جو نظر نہیں آتے ، سارب خفیہ کے بالمقابل لفظ ہے لیکن خود اس کے اندر بھی نرمی ، لطف اور اخفاء کا پر تو موجود ہے۔
لہ معقبت ۔۔۔۔ امر اللہ (13 : 11) ” ہر شخص کے آگے پیچھے اس کے مقدر کئے ہوئے نگراں موجود ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں “۔ وہ فرشتے جو انسانوں کی حفاظت کے لئے مقرر ہیں ، ہر آنے جانے والے کی حفاظت کرتے ہیں ، جو انسانوں کو ہر وسوسہ اور ہر خلجان سے بچاتے ہیں۔ یہ اللہ کے احکام کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہاں ان نگرانوں کی کوئی تعریف و تفصیل بیان نہیں کی جاتی۔ صرف یہ تعریف ان کی یہاں ہے کہ من امر اللہ۔ جو اللہ کے حکم سے کام کرتے ہیں ، ہم بھی یہاں ان کو مجمل ہی چھوڑتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ، ان کی صفات کیسی ہیں ، وہ کس طرح یہ نگرانی کرتے ہیں ، کہاں ہوتے ہیں ، اللہ نے چونکہ اس بات کو مخفی رکھا ہے ، اور اس کے اخفاء ہی سے وہ خوف پیدا ہوتا ہے جس کو یہاں پیدا کرنا مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن نے جس قدر کہہ دیا ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔ اور یہ اخفاء اور اجمال اتفاقی اور بےمقصد نہیں ہے ، جو لوگ قرآن کریم کے اسلوب کے اظہار کے بارے میں کچھ بھی تعلق رکھتے ہیں ان کے لئے یہ بات مشکل ہے کہ وہ قرآن کی پیدا کردہ ایک فضا کو ختم کردیں کیونکہ تفصیلات دینے سے وہ تاثر ختم ہوجائے گا۔
ان اللہ لا۔۔۔۔۔۔۔ بانفسھم (13 : 11) ” حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “۔ اللہ ان کی نگرانی اپنے کارندوں کے ذریعے یوں کرتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ لوگ اپنے اندر کیا کیا تبدیلیاں لاتے ہیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی کیا سعی کرتے ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ترقی و پسماندگی میں ، عزت و ذلت میں ، بلندی اور زوال میں کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک لوگ خود اپنی سوچ ، اپنے شعور ، اپنے اعمال اور اپنی سرگرمیوں کو بدلتے نہیں۔ چناچہ اللہ بھی لوگوں کی سوچ اور ان کے فکر و عمل کے مطابق لوگوں کے حالات میں تبدیلی پیدا کردیتا ہے ۔ اگرچہ اللہ کو پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا ایسا کریں گے اور یہ یہ نہ کریں گے ۔ عملی نتائج لوگوں کے فکرو عمل کے مطابق ہی نکلتے ہیں۔ ہاں یہ نتائج عملاً اس دور میں پیدا ہوئے جو لوگوں کی زندگی کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر بہت ہی بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ یہ اللہ کی مشیت کا تقاضا تھا اور اسی کے مطابق سنت الٰہیہ جاری وساری ہے کہ لوگوں کے حالات لوگوں کے بدلنے پر موقوف ہوں گے۔ سنت الٰہیہ ان کے طرز عمل اور ان کی طرز فکر پر مرتب ہوگی۔ یہ ایک صریح نص ہے ، لہٰذا اس میں کسی تاویل اور تحریف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سنت الٰہیہ کے تعین کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت ہی مکرم بنادیا ہے کہ خود انسان کے عمل سے سنت الٰہیہ بنتی ہے۔
اس سنت الٰہیہ کے تعین کے بعد سیاق کلام بتا دیتا ہے کہ اللہ کسی قوم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے تو سنت کیا ہوتی ہے۔ وہ بھی یہی ہوتی ہے کہ جب لوگ اپنے اندر بری تبدیلی لاتے ہیں تو پھر سنت الٰہیہ بھی ان کو برے دن دکھاتی ہے۔
واذا اراد اللہ۔۔۔۔۔۔ من وال (13 : 11) ” اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی ، نہ اللہ کے مقابلے میں ایسی قوم کا کوئی حامی و مدد گار ہوسکتا ہے “۔
یہاں سیاق کلام زوال کا یہ پہلو اس طرح بیان کرتا ہے کیونکہ یہاں موضوع و مضمون ایسا ہے کہ لوگ اچھائی سے زیادہ برائی کے طلبگار ہیں۔ جبکہ اللہ نے ان کو بتایا کہ وہ عذاب سے قبل تمہاری مغفرت کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ لوگ کس قدر غافل ہوگئے ہیں۔ اس لئے یہاں ان کے انجام بد کا کردیا جاتا ہے تا کہ وہ ڈریں اور عقل کے ناخن لیں کیونکہ اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں اور جب تمہاری ہلاکت کا فیصلہ آگیا تو پھر کوئی تمہارا حامی و مددگار نہ ہوگا۔
٭٭٭