You are reading a tafsir for the group of verses 13:1 to 13:2
الٓمّٓرٰ ۫
تِلْكَ
اٰیٰتُ
الْكِتٰبِ ؕ
وَالَّذِیْۤ
اُنْزِلَ
اِلَیْكَ
مِنْ
رَّبِّكَ
الْحَقُّ
وَلٰكِنَّ
اَكْثَرَ
النَّاسِ
لَا
یُؤْمِنُوْنَ
۟
اَللّٰهُ
الَّذِیْ
رَفَعَ
السَّمٰوٰتِ
بِغَیْرِ
عَمَدٍ
تَرَوْنَهَا
ثُمَّ
اسْتَوٰی
عَلَی
الْعَرْشِ
وَسَخَّرَ
الشَّمْسَ
وَالْقَمَرَ ؕ
كُلٌّ
یَّجْرِیْ
لِاَجَلٍ
مُّسَمًّی ؕ
یُدَبِّرُ
الْاَمْرَ
یُفَصِّلُ
الْاٰیٰتِ
لَعَلَّكُمْ
بِلِقَآءِ
رَبِّكُمْ
تُوْقِنُوْنَ
۟
3

قرآن ایک خداکو ماننے کی دعوت دیتاہے۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہوتی ہے کہ خدا اگر ہے تو ہم کو دکھائی کیوں نہیں دیتا۔ مگر ہماری معلوم کائنات بتاتی ہے کہ کسی چیز کا دکھائی نہ دینا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اس کا کوئی وجود بھی نہیں۔ اس کی ایک مثال قوتِ کشش ہے۔ خلا میں بے شمار الگ الگ ستارے اور سیارے ہیں۔ انسانی علم کہتاہے کہ ان اجرام سماوی کے درمیان ایک غیر مرئی قوت کشش ہے جو وسیع خلا میں ان کو سنبھالے ہوئے ہے۔ پھر انسان جب غیر مرئی ہونے کے باوجود قوت کشش کی موجودگی کا اقرار کررہا ہے تو غیر مرئی ہونے کی وجہ سے خدا کے وجود کا انکار کرنے میں وہ کیوں کر حق بجانب ہوگا۔

یہی معاملہ وحی ورسالت کا ہے۔ کائنات کا طالب علم جب کائنات کا مطالعہ کرتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں ہر چیز ایک نظام کی پابند ہے۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ تمام چیزیں کسی خاص حکم میں جکڑی ہوئی ہیں۔ یہ ’’حکم‘‘ خود ان چیزوں کے اندر موجود نہیں ہے۔ یقیناً وہ خارج سے آتاہے۔ گویا تمام دنیا اپنے عمل کے لیے ’’خارج‘‘ سے ہدایات لے رہی ہے۔ انسان کے علاوہ بقیہ دنیا میں اس خارجی ہدایت کا نام قانون فطرت ہے، اور انسان کی دنیا میں اس کا نام وحی والہام ۔ وحی دراصل اسی خارجی رہنمائی کی انسانی دنیا تک توسیع ہے جس کو بقیہ دنیا میں قانونِ فطرت کہاجاتا ہے۔

کائنات گویا ایک مشین ہے اور قرآن اس کی گائڈ بک۔ اوّل الذکر خدا کی تدبیر امر کی مثال ہے۔ اور ثانی الذکر خدا کی تفصیل آیات کی مثال۔ ان دونوں کے درمیان کامل مطابقت ہے۔ جو کچھ کائنات میں عملاً نظر آتاہے وہ قرآن میں لفظی طورپر موجود ہے۔ یہ مطابقت بیک وقت دو باتیں ثابت کرتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور دوسرے یہ کہ قرآن اسی خالق کی کتاب ہے، نہ کہ محدود انسانی دماغ کی تخلیق۔