درس نمبر 112 تشریح آیات
1۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔ 18
سورة کا آغاز اسلامی نظریہ حیات کے ایک بنیادی مسئلہ سے کیا جاتا ہے۔ یہ کہ یہ کتاب من جانب اللہ نازل ہوئی ہے۔ یہ جن حقائق پر مشتمل ہے ، وہ حق اور سچے ہیں۔ یہ بات اسلامی نظریہ حیات کے اساسیات میں سے ہے۔ باقی تمام نظریات و عقائد اسی نکتے پر تعمیر ہوتے ہیں۔ عقیدۂ توحید ، عقیدۂ بعث بعد الموت ، زندگی میں عمل صالح کی افادیت اور تمام اخلاقی تعلیمات اس بات پر موقوف ہیں کہ یہ سب احکام من جانب اللہ ہیں اور یہ قرآن کی شکل میں جبرائیل (علیہ السلام) خدا کی طرف سے لے کر آئے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ برحق ہیں۔ یہ ہے وہ بنیاد جس پر پورا دین تعمیر ہوا ہے۔
آیت نمبر 1
المر تلک ۔۔۔۔۔ الحق (13 : 1) ” یہ کتاب الٰہی کی آیات ہیں “۔ یعنی یہ آیات اس بات کی شاہد ہیں کہ یہ وحی منجانب اللہ ہے۔ کیونکہ یہ آیات انہی حروف تہجی سے مرکب ہیں۔ اور جب آج تک ان حروف سے ایسی کتاب کوئی نہیں بنا سکا تو ثابت ہوا کہ یہ وحی الٰہی ہیں۔
والذی انزل الیک من ربک الحق (13 : 1) ” اور جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ عین حق ہے “۔ یہی حق ہے ، یہ ایسا خالص حق ہے جس میں باطل کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے اور جس میں کوئی شک اور تردد نہیں ہے ۔ یہ حروف تہجی بھی اس پر دلیل ہیں کہ یہ حق ہے کیونکہ یہ اس کتاب کے من جانب اللہ ہونے پر دلیل ناطق ہیں۔ کیونکہ اللہ کی جانب سے جو آتا ہے وہ حق ہی ہوتا ہے اور اس میں شک کی گنجائش نہیں رہتی۔
ولکن اکثر الناس لا یومنون (13 : 1) ” مگر اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے “۔ وہ اس بات پر ایمان نہیں لاتے کہ یہ قرآن مجید من جانب اللہ ہے۔ اور نہ ان نتائج کو مانتے ہیں جو اس ایمان کے بعد سامنے آتے ہیں مثلاً عقیدۂ توحید ، صرف اللہ کی مکمل اطاعت ، عقیدہ بعث بعد الموت اور عقیدۂ توحید کے ساتھ عمل صالح۔ اور پوری زندگی کی اصلاح۔
یہ ہے اس سورة کا کلمہ آغاز اور اس کے اندر پوری سورة کے مضامین کو نچوڑ کر بند کردیا گیا ہے۔ ان تمام موضوعات کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے جو اس میں موجود ہیں۔ چناچہ تفصیلات کا آغاز مناظر قدرت الٰہیہ کے بیان سے کیا جاتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ، اس کی حرکت اور اس کے اثرات و آثار کس قدر گہری حکمت پر مبنی ہیں اور بذات خود یہ کائنات کس قدر عجیب چیز ہے ۔ جب یہ کائنات عجیب ہے ، اس کی مخلوق عجیب ہے اور اس کی حکمتیں ناقابل فہم ہیں تو انسان کی ہدایت کے لئے وحی و کتاب لابدی ہیں اور یہ کہ اس فانی دنیا کے بعد دائمی زندگی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ نیز اس کائنات کی اس پیچیدہ قدرت و حکمت کا تقاضا۔ منطقی تقاضا بھی یہ ہے کہ موت کے بعد تمام مخلوقات زندہ کر کے اٹھائی جائے۔ تمام لوگ اس کے سامنے حاضر ہوں جس نے ان کو پیدا کیا اور جس نے ان کے لئے اس کائنات کو مسخر کیا اور اس کی نعمتوں سے نوازا تا کہ وہ پوری زندگی کا جواب دیں۔ حساب و کتاب ہو ، جزاء وسزا اور عمل آزمائش مکمل ہو۔
مناظر قدرت کی عکاسی اور تصویر کشی یوں شروع ہوتی ہے کہ سب سے پہلے بڑے بڑے قدرتی مناظر کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے ۔ ایک ٹچ آسمانوں کو دیا جاتا ہے اور ایک ٹچ طویل و عریض زمین کو دیا جاتا ہے اور پھر اس زمین پر بکھری ہوئی حیات اور سا کے عجائبات سامنے آتے ہیں۔
اس کے بعد نہایت ہی تعجب سے کہا جاتا ہے کہ آخر ان لوگوں کے پاس کیا دلیل ہے کہ وہ بعث بعد الموت کے قائل نہیں۔ یہ لوگ دراصل ان قدرتی شواہد کے بعد آیات و معجزات کا مقابلہ کر کے دراصل عذاب الٰہی کو دعوت دیتے ہیں۔